علم اور عقل سونے سے نہیں خریدے جا سکتے بلکہ سونا حاصل کرنے کے لیے علم اور عقل کے ساتھ ساتھ دردمند دل بھی پیدا کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"امرت والا آ گیا۔ کیا خوب رنگ جما گیا۔ جو پیے میرا پانی، رہے گرمی نہ گرانی، پیو میرا ٹھندا پانی ‘‘
یہ جانی پہچانی آواز اس ادھیڑ عمر غریب آدمی کی ہوتی تھی ، جو چمڑے کی بڑی سی مشک پیٹھ پر لادے شہر کی سڑکوں پر پانی بیچا کرتا تھا۔ وہ دن بھر یوں ہی چلا تا رہتا، جب کہیں جا کر چار پیسے کما تا تھا۔ اس کا اصل نام تو شاید ہی کسی کو معلوم ہولیکن پیشے کی نسبت سے لوگ اسے مشکوب کہہ کر پکارتے تھے۔
ایک دن مشکوب صبح ہی سے اپنی مخصوص آوازیں لگا کر سڑکوں کے چکر کاٹتا رہا لیکن شام تک وہ اتنے پیسے بھی نہ کما پایا جن سے وہ پیٹ بھر کھانا کھا سکتا۔ مایوسی کے عالم میں کھڑا کچھ سوچ رہا تھا کہ اس کی نظر ایک اجنبی مسافر پر پڑی۔مسافر کے دھول میں اٹے کپڑوں سے لگتا تھا کہ وہ ایک بڑی لمبی مسافت طے کر کے آیا ہے اور خوب تھکا ہوا بھی ہے۔ مسافر نے مشکوب کی طرف دیکھا۔ مشکوب دل ہی دل میں خوش ہوا کہ چلو آخر کار ایک گاہک تو ہاتھ لگا اس نے پاس جاکر آواز لگائ۔
"امرت والا آ گیا۔ کیا خوب رنگ جما گیا۔ جو پیے میرا پانی، رہے گرمی نہ گرانی،پیو میرا ٹھنڈا پانی ۔ اپنی پیاس بجھاؤ اور تھکان کو دور بھگاؤ‘‘
مسافر نے کہا۔ بھائی! مسافتیں طے کرتے کرتے تو خود ہی ایک سفر بن گیا ہوں ۔ اس وقت بھی بہت دور سے آرہا ہوں ۔ تھک کر چور ہو گیا ہوں ۔ پیاس بہت لگ رہی ہے ۔ مگر کیا کروں، میرے پاس پیسے نہیں ہیں‘‘۔
مشکوب کو اجنبی مسافر پر رحم آ گیا۔ اس نے مسافر کو نہ صرف پانی پلایا بلکہ ایک رات اپنے گھر ٹھہرنے کی اجازت بھی دی۔ مسافر خوشی خوشی اس کے ساتھ چل دیا۔
صبح ہوتے ہی مسافر اٹھ کھڑا ہوا اور مشکوب کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے بولا ۔’’ بھائی! آپ بڑے مہربان آدمی ہیں ۔ آپ نے میرے ساتھ بڑی نیکی کی ہے ۔ آپ کی مہمان نوازی کے لیے میں بہت شکر گزار ہوں ۔ چاہتا ہوں کہ رخصت ہونے سے پہلے آپ کو ایک مجرب نسخہ بتا دوں یہ دوا آپ جس مریض کو بھی دیں گے وہ بہت جلد تندرست ہو جائے گا۔ اس کی بیماری خواہ کتنی ہی خطرناک کیوں نہ ہو۔ اس کے ساتھ ہی ایک کتاب مشکوب کی طرف بڑھاتے ہوۓ کہا۔’’ اس کتاب میں اس دوا کی تیاری کا نسخہ اور طریقہ سب کچھ درج ہے۔ ہدایت پر پورا پورا عمل کیجیے اور یاد رکھے کہ کسی غریب آدمی سے دوا کی قیمت نہ لے ورنہ دوا کا اثر جاتا رہے گا۔"
اس عنایت کے لیے مشکوب کا رواں رواں اجنبی مسافر کا شکر گزار ہوتا جا رہا تھا۔ وہ مسافر کا نام جاننا چاہتا تھا لیکن اس سے پیشتر کہ مشکوب کچھ کہ پا تا مسافر چلتا بنا اور دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔
اسی دن سے مشکوب نے سڑکوں پر پانی بیچنا بند کر دیا۔ کتاب میں درج نسخے پرعمل کر کے دوا تیار کی اور مریضوں کا علاج کرنا شروع کر دیا۔ ابتدا میں تو لوگوں کو یقین نہیں آتا تھا کہ مشکوب کی دوا میں اتنا زبردست اثرہوگا۔ لیکن جیسے جیسے مریضوں کو اس کی دوا سے شفا ہونے لگی ،ان کی تعداد بڑھتی گئی ۔ لوگ شفاخانہ پر مریضوں کا ہجوم رہنے لگا۔ اور مشکوب کو لوگ حکیم مشکوب کے نام سے مخاطب کرنے لگے۔
اجنبی کی ہدایت کے مطابق وہ غریبوں کو مفت دوا دیتا تھا۔ البتہ امیروں سے خوب پیسے لیتا تھا۔ لوگ مشکوب کی حکمت کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔ مشکوب روز بروز خوش حال ہوتا گیا۔ اس نے اپنے لیے ایک اچھا سا گھر بنالیا اور ایک خوب صورت عورت سے شادی کر کے بڑے آرام سے زندگی بسر کرنے لگا۔
جوں جوں مشکوب کی دولت بڑھتی گئی لا لچ اسے بہکانے لگا اور وہ سوچنے لگا کہ غریبوں کو مفت دوا دے کر اس نے سخت غلطی کی ہے ۔ اگر وہ ایسی غلطی نہ کرتا تو آج شہر کا سب سے بڑا دولت مند شخص بن گیا ہوتا۔
اگلے دن ایک بے حد غریب آدمی اپنے بیمار بچے کے لیے دوا لینے آیا۔ اس کے پھٹے پرانے کپڑوں اور بدحالی کو دیکھتے ہوۓ بھی حکیم مشکوب نے دوا دینے سے پہلے اس سےفیس طلب کی ۔ اس غریب نے اپنی مجبوریا بیان کر دی لیکن حکیم نے اس کی بے کسی پر غور نہ کیا۔غریب بے چارہ رونے لگا اور بولا ۔’’ حکیم صاحب یقین مانیےمیرے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہیں۔ خدا کے لیے میرے بچے کی جان بچا لیجیے۔ یہ میرا اکلوتا بچہ ہے۔حکیم صاحب خدا کے واسطے۔"
حکیم مشکوب غصے میں لال پیلے ہوکر چلاے۔"نکل جاو یہاں سے یہا کویٔ خیرات نہیں بٹ رہی ہے، جو منھ اٹھاۓ خالی ہاتھ چلے آتے ہو۔ بھا گو یہاں سے ورنہ ۔‘‘
غریب بے چارہ تو مایوس لوٹ گیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی حکیم کی دواؤں کا اثر بھی فورا زائل ہو گیا۔ دوا کو بے اثر پا کر وہ کتاب تلاش کرنے لگا۔ کتاب غائب ہو چکی تھی ۔ ادھر حافظہ بھی جواب دے چکا تھا۔ لاکھ کوشش کرنے پر بھی وہ مجرب نسخہ اسے یاد نہ آیا۔ مریضوں کا ہجوم منتشر ہونے لگا۔ جلد ہی اس کی تمام جمع پونجی ختم ہو گئی۔ رفتہ رفتہ مکان بھی نیلام ہو گیا اور پھر وہ غریبی کی اس حالت میں پہنچ گیا جہاں سے اس کے دن پھرے تھے۔
مرتا کیا نہ کرتا۔ پرانی مشک کی مرمت کروائی۔ اب پھر وہی مشک تھی اور وہی مشکوب ۔ شہر کی وہی سڑکیں اور مشکوب کی وہی صدائیں ۔ "امرت والا آ گیا۔ کیا خوب رنگ جما گیا۔ جو پے میرا پانی ، رہے گرمی نہ گرانی ۔ پیو میرا ٹھنڈا پانی ‘‘ دن بھرشہر کی سڑکوں پر چلتے چلتے وہ بہت کمزور ہو گیا۔ پھٹے بانس کی طرح آواز بھی بے سری ہوتی گئی۔لیکن مشک پیٹھ پر لادے وہ بدستور سڑکوں پر گھومتا رہتا۔ ایک دن وہ حسب معمول گرد آلودسڑکوں پر چکر لگارہا تھا کہ دور ہی سے اس نے ایک سانڈنی سوار کو دیکھا۔ مشکوب اس کی طرف بڑھا تو مسافر نے کہا۔’’ مشکوب بھائی! میں ایک بے یارو مددگار مسافر ہوں ۔ رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں ۔ اندھیرا چھانے کو ہے۔ ایک رات کے لیے اگر آپ مجھے اپنے گھر ٹھہرنے کی اجازت دیں تو میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں گا۔ مشکوب اس دن کسی اجنبی کو اپنے گھر ٹھہرانے کے حق میں نہ تھا۔ مگر مہمان نوازی کے سماجی ضابطوں سے منھ موڑ نا بھی بداخلاقی سمجھتا تھا۔ بادل ناخواستہ بولا ٹھیک ہے چلۓ آج رات آپ میرے ہی گھر پر ٹھریۓ۔"
گھر پہنچ کر مشکوب سے جو بھی بن پڑا کھانے پینے کا بندوبست کیا۔ کھانے سے فارغ ہوۓ تو مسافر نےمشکوب کی مہمان نوازی کی تعریف کرتے ہوۓ کہا۔’’ بھائی آپ بہت نیک آدمی ہیں ۔ آپ کی مہمان نوازی انعام کی مستحق ہے۔ مگر اس وقت پیش کرنے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں۔ خیر جو کچھ بھی ہے وہ میں آپ کو ضرور دونگا۔میں ایک کیمیا گر ہوں ، اور سونا بنانے کی ترکیب جانتا ہوں ۔ یہ راز میں آپ کو بھی بتا دوں گا۔مگر یادرکھیے کہ سونا ایک قومی دولت ہے ۔قوم کے کروڑوں غریب مزدور جب مل کر کام کرتے ہیں تو دیش کی یہی مٹی سونا اگلنےلگتی ہے۔سونے کو پیدا کرنے والے دراصل غریب لوگ ہیں اس لیے آپ کو بھی اپنی ضرورتیں پوری کرنے کےبعد اپنی باقی دولت کوغریب عوام کی بھلائی کے کاموں میں لگانا ہوگا۔ لیجیے یہ کتاب ’’سونا بنانے کے راز‘‘ میں آپ کی نظر کرتا ہوں۔اسے سنبھال کر رکھیے۔ یہ کہتے ہوئے مسافر نے مشکوب کو وہ کتاب پیش کی ۔
اسی رات مسافر اور مشکوب نے مل کر کام کیا اور سونے کی کچھ اینٹیں بھی تیار کر لیں ۔ سونے اینٹوں کو دیکھ کر مشکوب حیرت سے بت بنا کھڑا رہا۔ وہ مسافر کو دروازے تک چھوڑ نے بھی نہ جا سکا۔ اور مسافر چلا گیا۔
مسافر کے چلے جانے کے بعد مشکوب کافی دیر تک سوچتا رہا کہ اگر لوگوں کو میرے سونے کا پتہ چل گیا تو وہ اسے چرا لیں گے۔ اور اگر میں یہ سونا غریبوں کو بانٹتا رہا تو خود دولت مند کیسے بنوں گا۔ لالچ نے ایک بار پھر اس کی عقل پر پردہ ڈال دیا۔ اس نے فیصلہ کیا۔
” میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا۔ میں خود امیر بنوں گا۔ لوگ میری عزت کریں گے اور میں ٹھاٹ سے رہوں گا۔ میں اپنا سونا بے کار نہیں لٹاؤں گا۔ کسی کو نہیں دوں گا ۔‘‘
مسافر کے ساتھ مل کر بنائی ہوئی سونے کی اینٹوں سے مشکوب نے پھر ایک مکان خریدا۔ اچھے اچھے قالین بچھائے۔ قیمتی سامان سے گھر کوسجایا۔ اور عیش و آرام سے زندگی بسر کرنے لگا۔
کچھ ہی عرصے کے بعد جب مشکوب کے پاس سے تمام سونے کی اینٹیں ختتم ہوگی تو اسے مستقبل کی فکر ہویٔ۔
اس نے فوراًمسافر کی دی ہوئی کیمیا کی کتاب اٹھائی لیکن یہ دیکھ کر اس کا سارا نشہ ہرن ہو گیا کہ وہ قیمتی کتاب تو پتھر میں بدل چکی ہے۔ مستقبل میں روزی کے تمام دروازے بند ہوتے دیکھ کر اس کی چیخ نکل گئی اور وہ بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑا۔
وقت گزرتا گیا اور کچھ ہی دنوں کے بعد وہ پھر سے سڑکوں پر گھوم گھوم کر پانی بیچنے پر مجبور ہو گیا۔ ایک دن جب حسب معمول مشک اٹھاۓ چکر لگا رہا تھا کہ ایک گھوڑ سوار اس کے بالکل قریب آ کر کہنے لگا ۔
’’ارے مشکوب! مجھے پہچانتے نہیں ۔ اس سے پہلے ہم دو بار مل چکے ہیں ۔ پہلی بارمیں نے تمہیں ایک لاجواب دوا کی تیاری کا نسخہ بتایا تھا۔ مگر لالچ میں آ کر تم نے غریبوں کو بھی نہ بخشا اور ان ناداروں سے دوا کے منھ مانگے دام وصول کرنے پر تل گئے ۔
مشکوب یہ سن کر گڑ گڑایا۔ "میرے محسن! مجھے معاف کر دیجیے۔ آئندہ کبھی ایسی غلطی نہیں کروں گا۔ لالچ اور خود غرضی نے مجھے اندھا کر دیا تھا اور مجھے دیش کے غریبوں سے بیگانہ بنا دیا تھا۔اے عظیم انسان مجھے معاف کر دیجیے۔"
مسافر نے کہا اب مجھے اچھی طرح پہچان ہو۔ لوگ مجھے بو علی سینا کہتے ہیں۔ میری اپنی زندگی غریبوں اور محتاجوں کے لیے وقف ہے۔ مگر تمہاری سنگ دلی نے میری محنت پر پانی پھیر دیا اور دوقیمتی کتابوں کو پتھر بنا دیا۔ اب یہ پتھر پھر سے قیمتی کتابوں میں اس وقت تک نہیں بدل سکتے جب تک کہ تم جیسے سنگ دل لوگ اپنی زندگی غریبوں اور محتاجوں کی بھلائی کے لیے وقف نہ کر دیں ۔ جو بھی شخص ایسا کرے گا۔ اس کے دل کی گرمی ان پتھروں کو پگھلا سکے گی علم اور عقل سونے سے نہیں خریدے جا سکتے بلکہ سونا حاصل کرنے کے لیے علم اور عقل کے ساتھ ساتھ دردمند دل بھی پیدا کرنا پڑتا ہے یہ کہ کر بوعلی سینا نظروں سے اوجھل ہو گئے ۔
0 Comments