خلافت حضرت عمر اور فتوحات عراق (حصہ دوم) - Battles Of Iraq part 2

مشرقی فرات کے کنارے ایک مقام پر جس کا نام مروحہ تھا۔ دونوں حریف صف آرا ہوئے چونکہ بیچ میں دریا حائل تھا بہمن نے کہا بھیجا کہ یا تم اس پار اتر کر آؤ یا ہم آئیں، ابو عبیدہ کے تمام سرداروں نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم کو اس طرف رہنا چاہئے..................................

 

Battles-Of-Iraq-And-Hazrat-Umar-patr-2


فرّخ اور فراوندو جو باروسما اور زوادبی کے رئیس تھے۔ مطیع ہو گئے، چنانچہ اظہار خلوص کے لئے ایک دن ابو عبیدہ کو نہایت عمدہ عمدہ کھانے پکوا کر بھیجے ابو عبیدہ نے دریافت کیا کہ یہ سامان کل فوج کے لئے ہے یا صرف میرے لئے؟ فرّخ نے کہا کہ اس جلدی میں ساری فوج کا اہتمام نہیں ہو سکتا تھا۔ ابو عبیدہ نے دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور کہا کہ مسلمانوں میں ایک کو دوسرے پر کچھ ترجیح نہیں۔


اس شکست کی خبر سن کر رستم نے مردان شاہ کو جو عرب سے دلی عداوت رکھتا تھا۔ اور جس کو نوشیرواں نے تقدس کے لحاظ سے بہمن کا خطاب دیا تھا۔ چار ہزار فوج کے ساتھ اس سامان سے روانہ کیا کہ درفش کادیانی جو کئی ہزار برس سے کیانی خاندان کی یاد گار چلا آتا تھا۔ اور فتح و ظفر کا دیباچہ سمجھا جاتا تھا۔ اس کے سر پر سایہ کرتا جاتا تھا۔ مشرقی فرات کے کنارے ایک مقام پر جس کا نام مروحہ تھا۔ دونوں حریف صف آرا ہوئے چونکہ بیچ میں دریا حائل تھا بہمن نے کہا بھیجا کہ یا تم اس پار اتر کر آؤ یا ہم آئیں، ابو عبیدہ کے تمام سرداروں نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم کو اس طرف رہنا چاہئے۔ لیکن ابو عبیدہ جو شجاعت کے نشے میں سرشار تھے کہا کہ یہ نامردی کی دلیل ہے۔ سرداروں سے کہا یہ نہیں ہو سکتا کہ جانبازی کے میدان میں مجوسی ہم سے آگے بڑھ جائیں مردان شاہ جو پیغام لے کر آیا تھا۔ اس نے کہا کہ ہماری فوج میں عام خیال ہے کہ عرب مرد میدان نہیں ہیں"۔ اس جملے نے اور بھی اشتعال دلایا۔ اور ابو عبیدہ نے اسی وقت فوج کو کمر بندی کا حکم دے دیا۔ مثنی اور سلیط وغیرہ بڑے بڑے افسران فوج اس رائے کے بالکل مخالف تھے اور عظمت و شان میں ان کا رتبہ ابو عبیدہ سے بڑھ کر تھا۔


جب ابو عبیده نے اصرار کیا تو ان لوگوں نے کہا کہ گرچہ ہم کو قطعی یقین ہے کہ اس رائے پر عمل کرنے سے تمام فوج غارت ہو جائے گی۔ تاہم اس وقت تم افسر ہو اور افسر کی مخالفت ہمارا شیوہ نہیں، غرض کشتیوں کا پل باندھا گیا اور تمام فوج پار اتر کر غنیم سے معرکہ آراء ہوئی۔ پار کا میدان تنگ اور ناہموار تھا۔ اس لئے مسلمانوں کو موقع نہیں مل سکتا تھا کہ فوج کو ترتیب سے آراستہ کر سکتے۔


ایرانی فوج کا نظارہ نہایت مہیب تھا بہت سے کوہ پیکر ہاتھی تھے جن پر گھنٹے لٹکتے تھے اور بڑے زور سے بجتے جاتے تھے۔ گھوڑوں پر آہنی پاکھریں تھیں ، سوار سمور کی لمبی ٹوپیاں اوڑھے ہوئے صحرائی جانور معلوم ہوتے تھے عرب کے گھوڑوں نے یہ مہیب نظارہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ بدک کر پیچھے ہٹے۔ ابو عبیدہ نے دیکھا کہ ہاتھیوں کے سامنے کچھ زور نہیں چلتا۔ گھوڑے سے کود پڑے اور ساتھیوں کو للکارا کہ جانبازو ہاتھیوں کو بیچ میں لے لو اور جوروں کو سواروں سمیت الٹ دو اس آواز کے ساتھ سب گھوڑوں سے کود پڑے اور ہودوں کی رسیاں کاٹ کر فیل نشینوں کو خاک پر گرا دیا۔ لیکن ہا تھی جس طرف جھکتے تھے صف کی صف پس جاتی تھی۔ابو عبیدہ یہ دیکھ کر پیل سفید پر جو سب کا سردار تھا حملہ آور ہوئے اور سونڈ پر تلوار ماری کہ مستک سے الگ ہو گئی ہاتھی نے بڑھ کر ان کو زمین پر گرا دیا اور سینے پر پاؤں رکھ دئے کہ ہڈیاں تک چور چور ہو گئیں۔


ابو عبیدہ کے مرنے پر ان کے بھائی حکم نے علم ہاتھ میں لیا۔ اور ہاتھی پر حملہ آور ہوئے۔ اس نے ابو عبیدہ کی طرح ان کو بھی پاؤں میں لپیٹ کر مسل دیا۔ اس طرح سات آدمیوں نے جو سب کے سب ابو عبیدہ کے ہم نسب اور خاندان ثقیف سے تھے باری باری سے علم ہاتھ میں لئے اور مارے گئے۔ آخر میں مثنٰی نے علم لیا۔ لیکن اس وقت لڑائی کا نقشہ بگڑ چکا تھا۔ اور فوج میں بھاگ دوڑ پڑ چکی تھی۔ طرہ یہ ہوا کہ ایک شخص نے دوڑ کر پل کے تختے توڑ دیئے کہ کوئی شخص بھاگ کر جانے نہ پائے۔ لیکن لوگ اس طرح بد حواس ہو کر بھاگے تھے کہ پل کی طرف راستہ نہ ملا تو دریا میں کود پڑے۔ مثٰنی نے دوبارہ پل بندھوایا اور سواروں کا ایک دستہ بھیجا کہ بھاگتوں کو اطمنان سے پار اتار دے۔ خود بچی کچھی فوج کے ساتھ دشمن کا آگا روک کر کھڑے ہوئے اور اس ثابت قدمی سے لڑے کہ ایرانی جو مسلمانوں کو دباتے آتے تھے رک گئے اور آگے نہ بڑھ سکے۔ تاہم حساب کیا گیا تو معلوم ہوا کہ نو ہزار فوج میں سے صرف تین ہزار رہ گئی۔ اسلام کی تاریخ میں میدان جنگ سے فرار نہایت شاذو نادر وقوع میں آیا ہے اور اگر کبھی ایسا واقعہ پیش آبھی گیا تو اس کا عجیب افسوس ناک اثر ہوا ہے۔ اس لڑائی میں جن لوگوں کو یہ ذلت نصیب ہوئی وہ مدت تک خانہ بدوش پھرتے رہے۔ اور شرم سے اپنے گھروں کو نہیں جاتے تھے۔ اکثر رویا کرتے اور لوگوں سے منہ چھپاتے پھرتے تھے ۔ مدینہ منورہ میں یہ خبر پہنچی تو ماتم پڑ گیا۔ لوگ مسلمانوں کی بد قسمتی پر افسوس کرتے تھے۔ اور روتے تھے، جو لوگ مدینہ پہنچ کر گھروں میں روپوش تھے۔ اور شرم سے باہر نہیں نکلتے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ان کے پاس جاکر ان کو تسلی دیتے تھے۔ اور کہتے تھے کہ تم "او مستحيزًا الى فئةً" میں داخل ہو ، لیکن ان کو اس سے تسلی نہیں ہوتی تھی-

یہ واقعہ (حسب بیان بلاذری) ہفتہ کے دن رمضان 13 ہجری میں واقع ہوا اس لڑائی۔ میں نامور صحابیوں میں سے جو لوگ شہید ہوئے وہ سلیط، ابو زید انصاری، عقبہ وعبدالله پسران، قبطی بن قیس، یزید بن قیس الانصاری، ابو امیہ الفرازی وغیرہ تھے۔

Post a Comment

0 Comments