حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ رنگ دیکھ کر دفعتًہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا کہ سب سے پہلے میں بیعت کرتا ہوں ۔ساتھ ہی..............
حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت وفات پائی مدینہ منورہ منافقوں سے بھرا پڑا تھا جو مدت سے اس بات کے........ منتظر تھے کہ رسول اللہ کا سایہ اٹھ جائے تو اسلام کو پامال کر دیں۔ اس نازک وقت میں یہ ضروری تھا کہ لوگ جزع اور گریہ زاری میں مصروف نہ رہیں اور فورا خلافت کا انتظام کر لیا جاۓ ۔ اور ایک منظم حالت قائم ہو جاۓ انصار نے اپنی طرف سے خلافت کی بحث چھیڑ کر حالت کو اور نازک کر دیا۔ کیونکہ قریش جو انصار کو اس قدر حقیر سمجھتے تھے کہ جنگ بدر میں جب انصار ان کے مقابلے کو نکلے تو عتبہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہا کہ ”محمد! ہم ناجنسوں سے نہیں لڑسکتے" کسی طرح انصار کے آگے سر تسلیم خم نہیں کر سکتے تھے۔ قریش پر کیا موقوف ہے، تمام عرب کو انصار کی متابعت سے انکار ہوتا چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے سقیفہ بنی ساعدہ میں جو خطبہ دیا اس میں صاف اس خیال کو ظاہر کیا اور کہا ”وان العرب لا تعرف ھذا الامرالا لهذا الحي من قريش“ اس کے علاوہ انصار میں خودگروہ تھے اوس اور خزرج اور ان میں باہم اتفاق نہ تھا۔ اس حالت میں ضروری تھا کہ انصار کے دعوی خلافت کو دبادیا جاۓ اور کوئی لائق شخص فورًا انتخاب کر لیا جاۓ ۔ مجمع میں جو لوگ موجود تھے ان میں سب سے بااثر بزرگ اور معمر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ تھے۔ اور فورًا ان کا انتخاب بھی ہو جاتا۔ لیکن لوگ انصار کی بحث و نزاع میں پھنس گئے تھے ۔ اور بحث طول پکڑ کر قریب تھا کہ تلواریں میان سے نکل آئیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ رنگ دیکھ کر دفعتًہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا کہ سب سے پہلے میں بیعت کرتا ہوں ۔ساتھ ہی حضرت عثمان ابوعبید بن جراح عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہم نے بھی ہاتھ بڑھائے اور پھر عام خلقت ٹوٹ پڑی۔ اس کاروائی سے ایک اٹھتا ہوا طوفان رک گیا۔ اور لوگ مطمئین ہو کر کاروبار میں مشغول ہو گئے۔ صرف بنو ہاشم اپنے ادعا پر اڑے رہے۔ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر میں وقتً فوقتاً جمع ہو کر مشورے کرتے رہتے تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بزور ان سے بیعت لینی چاہی۔ لیکن بنو ہاشم حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے سوا کسی کے آگے سر نہیں جھکا سکتے تھے۔ ابن ابی شیبہ نے مصنف میں اور علامہ طبری نے تاریخ کبیر میں روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا ”یا بنت رسول اللہ خدا کی قسم آپ ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ تاہم اگر آپ کے یہاں لوگ اس طرح مجمع کرتے رہے تو میں ان لوگوں کی وجہ سے گھر میں آگ لگا دوں گا۔" اگر چہ سند کے اعتبار سے اس روایت پر ہم اپنا اعتبار ظاہر نہیں کر سکتے کیونکہ اس روایت کے رواۃ کا حال ہم کو معلوم نہیں ہو سکا۔ تاہم درایت کے اعتبار سے اس وقعہ کے انکار کی کوئی وجہ نہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی تندہی اور تیز مزاجی سے یہ حرکت کچھ بعید نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس نازک وقت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے نہایت تیزی اور سرگرمی کے ساتھ جو کاروائیاں کی ان میں گو بعض بے اعتدالیاں پائی جاتی ہوں۔ لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ انہی بے اعتدالیوں نے اٹھتے ہوئے فتنوں کو دبا دیا۔ بنو ہاشم کی سازشیں اگر قائم رہتیں تو اسی وقت جماعت اسلامی کا شیرازہ بکھر جاتا۔ اور وہیں خانہ جنگیاں برپا ہو جاتیں جو آگے چل کر جناب علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہم میں واقع ہوئیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کی مدت سوا دو برس ہے۔ کیونکہ انہوں نے جمادی الثانی 13 ہجری میں انتقال کیا۔ اس عہد میں اگرچہ جس قدر بڑے بڑے کام انجام پاۓ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی شرکت سے انجام پاۓ۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو اگرچہ مدتوں کے تجربہ سے یقین ہو گیا تھا کہ خلافت کا بارگراں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے سوا اور کسی سے اٹھ نہیں سکتا تاہم وفات کے قریب انہوں نے راۓ کا اندازہ کرنے کے لئے اکابر صحابہ سے مشورہ کیا۔ سب سے پہلے عبدالرحمن بن عوف کو بلا کر پوچھا۔ انہوں نے کہا عمررضی اللہ تعالی عنہ کی قابلیت میں کیا کلام ہے۔ لیکن مزاج میں سختی ہے ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ان کی سختی اس لئے تھی کہ میں نرم تھا۔ جب کام انہی پر آپڑے گا تو وہ خود بخود نرم ہو جائیں گے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو بلا کر پوچھا انہوں نے کہا کہ" میں اس قدر کہہ سکتا ہو کہ عمر کا باطن ظاہر سے اچھا ہے اور ہم لوگوں میں ان کا جواب نہیں“۔ جب اس بات کے چرچے ہوۓ کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ کرنا چاہتے ہیں تو بعضوں کو تردد ہوا۔ چنانچہ طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ سے جا کر کہا کہ ” آپ کے موجود ہوتے ہوۓ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا ہم لوگوں کے ساتھ کیا برتاؤ تھا؟ اب وہ خود خلیفہ ہونگے تو خدا جانے کیا کریں گے۔ اب آپ خدا کے ہاں جاتے ہیں۔ یہ سوچ لیجئے کہ خدا کو کیا جواب دیجئے گا“ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا میں خدا سے کہوں گا کہ میں نے تیرے بندوں پر اس شخص کوافسر مقرر کیا جو تیرے بندوں میں سب سے زیادہ اچھا تھا۔ یہ کہہ کر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو بلایا۔ اور عہد نامہ لکھوانا شروع کیا۔ ابتدائی الفاظ لکھوائے جاچکے تھے کہ غش آگیا حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ دیکھ کر یہ الفاظ اپنی طرف سے لکھ دیئے کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ مقرر کرتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد ہوش آیا تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا کہ کیا لکھا ہے مجھ کر پڑھ کر سناؤ۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے پڑھا تو بے ساختہ اللہ اکبر پکاراٹھے اور کہا کہ خدا تم کو جزائے خیر دے عہد نامہ لکھا جا چکا تھا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے غلام کو دیا کہ مجمع عام میں سناۓ پھر خود بالا خانے پر جاکر لوگوں سے جو نیچے جمع تھے مخاطب ہوۓ۔ اور کہا کہ میں نے اپنے کسی بھائی بند کو خلیفہ مقرر نہیں کیا۔ بلکہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو مقرر کیا۔ کیا تم لوگ اس پر راضی ہوئے سب نے سمعنا واطعنا کہا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو نہایت مواثر اور مفید نصیحتیں کیں جو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے عمدہ دستور العمل کی جگہ کام آئیں۔
حضرت عمر اور جنگ حنین
0 Comments