حنین عرفات کے پیچھے ایک وادی کا نام ہے جو مکہ معظمہ سے نو دس میل ہے۔ ہوازن عرب کا مشہور اور معزز قبیلہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزوہ حنین 8 حجری
اس سال ہوازن کی لڑائی پیش آئی جو کہ غزوہ حنین کے نام سے مشہور ہے۔حنین عرفات کے پیچھے ایک وادی کا نام ہے جو مکہ معظمہ سے نو دس میل ہے۔ ہوازن عرب کا مشہور اور معزز قبیلہ تھا۔ یہ لوگ ابتداء سے اسلام کی ترقی کو رقابت کی نگاہ سے دیکھتے آتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے ارادہ سے مدینہ سے نکلے تو ان لوگوں کو گمان ہوا کہ ہم پر حملہ کرنا مقصود ہے۔ چنانچہ اس وقت جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اور جب یہ معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پہنچے تو مکہ پر حملہ کے لئے بڑے ساز و سامان سے روانہ ہو کر حنین میں ڈیرے ڈالے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر سنی تو بارہ ہزار کی جمعیت کے ساتھ مکہ معظمہ سے روانہ ہوۓ حنین میں دونوں فوجین صف آراء ہوںٔیں مسلمانوں نے پہلے حملہ میں ہوازن کو بھگا دیا ۔ لیکن مال غنیمت کے لوٹنے میں مصروف ہوۓ تو ہوازن نے حملہ کیا۔ اور اس قدر تیر برساۓ کہ مسلمانوں میں ہلچل مچ گئی۔ اور بارہ ہزار آدمیوں سے معدودے چند ......... کے سوا باقی سب بھاگ نکلے ۔ اس معرکہ میں جو صحابہ ثابت قدم رہے ان کا نام خصوصیت کے ساتھ لیا گیا ہے۔ اور ان میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل ہیں۔ چنانچہ علامہ طبری نے صاف تصریح کی ہے۔ محمد بن اسحاق جو امام بخاری کے شیوخ حدیث میں داخل ہیں۔ اور مغازی و میر کے امام مانے جاتے ہیں۔ کتاب المغازی میں لکھا ہے کہ
”وبا پیغمبر چند تن از مهاجرین و انصار واہل بیت بازمانده بودند مثل ابوبکر و علی و عمرو عباس رضی اللہ تعالی عنهم الخ"۔
لڑائی کی صورت بگڑ کر پھر بن گئی۔ یعنی مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ اور ہوازن کے چھ ہزار آدی گرفتا رہوئے.
9 ہجری میں خبر مشہور ہوئی کہ قیصر روم عرب پر حملہ کی تیاریاں کر رہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر صحابہ کو تیاری کا حکم دیا اور چونکہ یہ نہایت تنگی اور عسرت کا زمانہ تھا۔ اس لئے لوگوں کو زرومال سے اعانت کی ترغیب دلائی۔ چنانچہ اکثر صحابہ نے بڑی بڑی رقمیں پیش کیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس موقع پر تمام مال واسباب میں سے آدھا لا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ فرض اسلحہ اور رسد کا سامان مہیا کیا گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے روانہ ہوئے۔ لیکن مقام تبوک میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ خبر غلط تھی۔ اسی لئے چند روز قیام فرما کر واپس آئے۔
اسی سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات سے ناراض ہو کر ان سے علیحدگی اختیار کی۔ اور چونکہ لوگوں کو آپ کے طرز عمل سے یہ خیال ہوا تھا کہ آپ نے ازواج کو طلاق دے دی اس لئے تمام صحابہ کو نہایت رنج وافسوس تھا۔ تاہم کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ کہنے سننے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حاضر ہونا چاہا۔ لیکن بار بار اذن مانگنے پر بھی اجازت نہ ملی۔ آخر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پکار کر دربان سے کہا کہ ”شاید رسول اللہ کو یہ گمان ہے کہ میں حفصہ (حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی بیٹی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ) کی سفارش کے لئے آیا ہوں خدا کی قسم اگر رسول اللہ حکم دیں تو میں جا کر حفصہ کی گردن ماردوں“۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فورا بلایا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی کہ ”کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج کو طلاق دے دی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں“ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ تمام مسلمان مسجد میں سوگوار بیٹھے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اجازت دیں تو انہیں یہ مژدہ سنا آؤں اس واقعہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی کے تقرب کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ چناچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے انہی واقعات کے سلسلے میں ایک موقع پر کہا کہ ”عمرا تم ہر چیز میں دخیل ہو گئے۔ یہاں تک کہ اب ازواج میں بھی دخل دینا چاہتے ہو“۔
10 ہجری میں تمام اطراف عرب سے نہایت کثرت سے سفارتیں آئیں۔ اور ہزاروں لاکھوں آدمی اسلام کے حلقے میں آئے۔ اسی سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے لئے مکہ معظمہ کا قصد کیا اور یہ حج آپ کا آخری حج تھا۔
11 ہجری ماہ صفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رومیوں کے مقابلے کے لئے اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کو مامور کیا۔ اور تمام اکابر صحابہ کو حکم دیا کہ ان کے ساتھ جائیں لوگ تیار ہو چکے تھے کہ اخیر صفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے اور تجویز ملتوی رہ گئی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بروایت مشہور 13 دن بیمار رہے۔ بیہقی نے بہ سند صحیح ان کی تعداد دس دن بیان کی ہے۔ سلیمان تمیمی نے بھی مغازی میں یہی تعداد لکھی ہے بیماری کی حالت یکساں نہ تھی کبھی بخار کی شدت ہو جاتی تھی اور کبھی اس قدر افاقہ ہو جاتا تھا کہ مسجد میں جاکر نماز ادا فرماتے تھے یہاں تک عین وفات کے دن نماز فجر کے وقت طبیعت اس قدر بحال تھی کہ آپ دروازے تک آۓ اور پردہ اٹھا کر لوگوں کو نماز پڑھتے دیکھا نہایت محظوظ ہوئے اور تبسّم فرمایا۔
1 Comments
Best
ReplyDelete