اسلام سے پہلے عرب کے فارس وشام سے تعلقات - Relation Between Arabs and Romans & Persian Before Islam

رومی سلطنت سے عرب کا جو تعلق تھا یہ تھا کہ عرب کے چند قبیلےسلیح و غسان وجذام وغیرہ شام کے سرحدی اضلاع میں جاکر آباد ہو گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Relation Between Arabs and Romans & Persian Before Islam

خلافت اور فتوحات


حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد میں مرتدین اور جھوٹے نبوت کے دعویدارو کا خاتمہ ہو کر فتوحات ملکی کا آغاز ہو چکا تھا۔ خلافت کے دوسرے ہی برس یعنی 12 ہجری میں عراق میں لشکر کشی ہوئی اور حیرہ کے تمام اضلاع فتح ہو گئے۔ 13 ہجری (633ء) میں شام پر حملہ ہوا۔ اور اسلامی فوجیں تمام اضلاع میں پھیل گئیں۔ ان مہمات کا ابھی آغاز ہی تھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا انتقال ہو گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عنان خلافت اپنے ہاتھ میں لی تو سب سے ضروری کام انہی مہمات کو انجام دینا تھا۔ لیکن قبل اس کے کہ ہم ان واقعات کی تفصیل لکھیں یہ بتانا ضروری ہے کہ اسلام سے پہلے عرب کے فارس وشام سے کیا تعلقات تھے۔ 


عرب کا نہایت قدیم خاندان جو عرب بایدہ کے نام سے مشہور ہے ۔ اگرچہ اس کے حالات نامعلوم ہیں تاہم اس قدر ہے کہ عاد اور عمالقہ نے عراق پر قبضہ کرلیا تھا۔ عرب عرباء جو یمن کے فرمانروا تھے ان کی حکومت ایک زمانہ میں بہت زور پکڑ گئی تھی۔ یہاں تک کہ چند بار عراق پر قابض ہو گئے۔ اور سلطنت فارس کے ساتھ ان کو ہمسری کا دعوی رہا۔ 


رفته رفتہ عرب خود حکومت فارس کے علاقہ میں آباد ہونے شروع ہو گئے۔ بخت نصر نے جو بابل کا بادشاہ تھا۔ اور بیت المقدس کی بربادی نے اس کے نام کو شہرت دے دی ہے۔ جب عرب پر حملہ کیا تو بہت سے قبیلے اس کے مطیع ہو گئے۔ اور اس تعلق سے عراق میں جاکر آباد ہو گئے۔ رفتہ رفتہ معد بن عدنان کی بہت سی نسلیں ان مقامات میں آباد ہوتی گئیں۔ یہاں تک کہ ریاست کی بنیاد پڑ گئی۔ اور چونکہ اس زمانے میں سلطنت فارس میں طوائف الملوکی قائم ہو گئی تھی، عربوں نے مستقل حکومت قائم کرلی۔ جس کا پہلا فرمانروا مالک بن فہم عدنانی تھا۔ اس خاندان میں جزیمۃ الابرش کی سلطنت نہایت وسیع ہوئی۔ اس کا بھانجا عمروبن عدی جو اس کے بعد تخت نشین ہوا۔ اس نے حیرہ کو دارالسلطنت قرار دیا۔ اور عراق کا بادشاہ کہلایا اس دور میں اس قدر تمدن پیدا ہو گیا تھا کہ ہشام کلبی کا بیان ہے کہ میں نے عرب کے زیادہ تر حالات اورفارس و عرب کے تعلقات زیادہ تر انہی کتابوں سے معلوم کئے جو حیرہ میں اس زمانے میں تصنیف ہوئی تھیں ۔ اس زمانے میں اردشیر بن مالک نے طوائف الملوکی مٹاکر ایک وسیع سلطنت قائم کی اور عمرو بن عدی کو با جگزار بنالیا۔ عمرو بن عدی کا خاندان اگرچہ مدت تک عراق میں فرمانروا رہا۔ لیکن در حقیقت وہ سلطنت فارس کا ایک صوبہ تھا۔


شاہ پور بن اردشیر جو سلسله ساسانیہ کا دوسرا فرمانروا رہا تھا۔ اس کے عہد میں حجاز و یمن دونوں با جگزار ہو گئے۔ اور امراء القیس کندی ان صوبوں کا گورنر مقرر ہوا۔ تاہم مطیع ہوکر رہنا عرب کی فطرت کے خلاف تھا۔ اس لئے جب بھی موقع ملتا تھا تو بغاوت برپا ہو جاتی تھی چنانچہ شاہ پور زی الاکتاف جب صغر سنی میں فارس کے تخت پر بیٹھا تو تمام عرب میں بغاوت پھیل گئی۔ یہاں تک کہ قبیلہ عبدالقیس نے خود فارس پر حملہ کر دیا۔ اور ایاد نے عراق کے صوبے دبا لئے شاہ بڑا ہو کر بڑے عزم و استقلال کا بادشاہ ہوا۔ اور عرب کی بغاوت کا انتقام لینا چاہا۔ ہجر میں پہنچ کر نہایت خونریزی کی اور قبیلہ عبدا لقیس کو برباد کرتا ہوا مدینہ منورہ تک پہنچ گیا۔ رؤساۓ عرب جو گرفتار ہو کر اس کے سامنے آتے تھے ان کے شانے اکھڑوا ڈالتا تھا۔ چنانچہ اسی وجہ سے عرب میں وہ ذوالاکتاف کے لقب سے مشہور ہے۔


سلاطین حیرہ میں سے نعمان بن منذر نے جو کسٰری پرویز کے زمانہ میں تھا۔ عیسوی مذہب قبول کرلیا۔ اور اس تبدیل مذہب پر یا کسی اور سبب سے پرویز نے اسکو قید کردیا۔ اور قید ہی میں اس نے وفات پائی نعمان نے اپنے ہتھیار وغیرہ ہانی کے پاس امانت رکھوا دیے جو قبیلہ بکر کا سردار تھا پرویز نے اس سے وہ چیزیں طلب کیں۔ اور جب اس نے انکار کیا تو ہرمزان کو دو ہزار فوج کے ساتھ بھیجا کہ بزور چھین لاۓ بکر کے تمام قبیلے ذی وقار ایک مقام میں بڑے سروسامان سے جمع ہوۓ۔ اور سخت معرکہ ہوا فارسیوں نے شکست کھائی۔ اس لڑائی میں جناب رسول اللہ بھی تشریف رکھتے تھے۔ اور آپ نے فرمایا کہ ,


هذا اول يوم انتصفت العرب من العجم

یعنی" یہ پہلا دن ہے کہ عرب نے عجم سے بدلہ لیا"


عرب کے تمام شعراء نے اس واقعہ پر بڑے فخر اور جوش کے ساتھ قصیدے اور اشعار لکھے۔ سنہ 6 ہجری میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام بادشاہوں کو دعوت اسلام کے خطوط لکھے تو باوجود اس کے کہ ان خطوط میں جنگ و جدل کا اشارہ تک نہ تھا۔ پرویز نے خط پڑھ کر کہا کہ میرا غلام ہو کر مجھ کو یوں لکھتا ہے۔ اس پر بھی قناعت نہ کی بلکہ بازان کو جو یمن کا عامل تھا لکھا کہ کسی کو بھیج دو کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو گرفتار کر کے دربار میں لاۓ۔ اتفاق سے اس زمانے میں پرویز کو اس کے بیٹے نے ہلاک کر دیا اور معاملہ یہیں تک رہ گیا۔



رومی سلطنت سے عرب کا جو تعلق تھا یہ تھا کہ عرب کے چند قبیلےسلیح و غسان وجذام وغیرہ شام کے سرحدی اضلاع میں جاکر آباد ہو گئے تھے ۔ ان لوگوں نے رفتہ رفتہ شام کے اندرونی اضلاع پر قبضہ کرلیا تھا۔ اور زیادہ قوت و جمعیت حاصل کرکے شام کے بادشاہ کہلانے لگے تھے لیکن یہ لقب خود انکا خانہ ساز لقب تھا۔ ورنہ جیسا کہ مؤرخ ابن الاثیر نے تصریح کی ہے در حقیقت وہ رومی سلطنت کے صوبہ دار تھے۔


ان لوگوں نے اسلام سے بہت پہلے عیسائی مذہب قبول کر لیا تھا۔ اور اس وجہ سے ان کو رومیوں کے ساتھ ایک قسم کی یگانگت ہو گئی اسلام کا زمانہ آیا تو مشرکین عرب کی طرح وہ بھی اسلام کے دشمن نکلے سن 6 ہجری میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیصر روم کو دعوت اسلام کا خط لکھا۔ اور وحیہ کلبی (جو خط لے کر گئے تھے واپس آتے ہوۓ ارض جذام میں پہنچے تو انہی شامی عربوں نے وحیہ پر حملہ کر دیا۔ اور تمام مال واسباب لوٹ لیا۔ اسی طرح جب رسول اللہ نے حارث بن عمیر کو خط دے کر بصرٰی کے حاکم کے پاس بھیجا تو عمرو بن شرجیل نے ان کو قتل کرا دیا۔ چنانچہ اس کے انتقام کیلئے رسول اللہ نے سنہ 8 ہجری میں لشکر کشی کی اور غزوہ موتہ کا واقعہ پیش آیا۔ اس لڑائی میں زید بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالی عنہ، عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالی عنہ جو بڑے بڑے رتبہ کے صحابہ تھے ، شہید ہوئے ۔ اور گو خالد رضی اللہ تعالی عنہ کی حکمت عملی سے فوج صحیح و سلامت نکل آئی تاہم نتیجہ جنگ در حقیقت شکست تھا۔


 9 ہجری میں رومیوں نے خاص مدینہ پر حملہ کی تیاریاں کیں۔ لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود پیش قدمی کر کے مقام تبوک تک پہنچے تو ان کو آگے بڑھنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ اگرچہ اس وقت عارضی طور سے لڑائی رک گئی لیکن رومی اور غسانی مسلمانوں کی فکر سے کبھی غافل نہیں رہے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کو ہمیشہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ مدینہ پر چڑھ نہ آئیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت مشہور ہوا کہ آپ نے ازواج مطہرات کو طلاق دے دی تو ایک شخص نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے جاکرکہا کہ کچھ تم نے سنا! حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کیا؟ کہیں غسانی تو نہیں چڑھ آے۔


اسی حفظ ماتقدم کے لئے 11 ہجری میں رسول اللہ نے اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کو سردار بنا کر شام کی مہم پر بھیجا۔ اور چونکہ ایک عظیم الشان سلطنت کا مقابلہ تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ و عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور بڑے بڑے نامور صحابہ مامور ہوۓ کہ فوج کے ساتھ جائیں۔ اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ ابھی روانہ نہیں ہوئے تھے کہ رسول اللہ نے بیمار ہو کر انتقال فرمایا۔ غرض جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ مسند خلافت پر متمکن ہوۓ تو عرب کی یہ حالت تھی کہ دونوں ہمسایہ سلطنتوں کا ہدف بن چکا تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے شام پر لشکر کشی کی تو فوج سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم میں جو شخص مارا جائے گا شہید ہوگا۔ اور جو بچ جاۓ گا مدافع عن الدین ہو گا۔ یعنی دین کو اس نے دشمنوں کے حملے سے بچایا ہوگا۔ ان واقعات سے ظاہر ہو گا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے جو کام شروع کیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جس کی تکمیل کی اس کے کیا اسباب تھے؟


Post a Comment

0 Comments