حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ خبریں پہنچیں تو فوراً مثٰنی کو حکم بھیجا کہ فوجوں کو ہر طرف سے سمیٹ کر عرب کی سرحد کی طرف ہٹ آؤ۔ اور ربیعہ و مصر کے قبائل جو عراق کی حدود میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کو طلبی کا حکم بھیج دو کہ تاریخ معین پر جمع ہو جائیں۔------------------
جہاں اب بغداد آباد ہے اس زمانے میں وہاں بہت بڑا بازار لگتا تھا مثٰنی نے عین بازار کے دن حملہ کیا۔ بازاری جان بچا کر ادھر ادھر بھاگ گئے اور بے شمار نقد اور اسباب ہاتھ آیا۔ پائے تخت میں یہ خبریں پہنچیں تو سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ”زنانہ حکومت اور آپس کے اختلافات کا ہی نتیجہ تھا اس وقت پوران دخت کو تخت سے اتار کر یزدگرد کو جو سولہ برس کا جوان تھا۔ اور خاندان کسری کا وہی ایک نرینہ یادگار رہ گیا تھا۔ تخت نشین کیا۔ رستم اور فیروز جو سلطنت کے دست بازو تھے۔ آپس میں عناد رکھتے تھے۔ درباریوں نے ان سے کہا کہ اب بھی اگر تم دونوں متفق ہو کر کام نہیں کرتے تو ہم خود تمہارا فیصلہ کئے دیتے ہیں۔ غرض یزد گرد کی تخت نشینی کے ساتھ سلطنت میں نئے سرے سے جان آگئی۔ ملکی اور فوجی افسر جہاں جہاں جس کام پر تھے مستعد ہو گئے۔ تمام قلعے اور چھاونیاں مستحکم کر دی گئیں۔ عراق کی آبادیاں جو فتح ہو چکی تھیں عجم کا سہارا پاکر وہاں بھی بغاوت پھیل گئی۔ اور تمام مقامات مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ خبریں پہنچیں تو فوراً مثٰنی کو حکم بھیجا کہ فوجوں کو ہر طرف سے سمیٹ کر عرب کی سرحد کی طرف ہٹ آؤ۔ اور ربیعہ و مصر کے قبائل جو عراق کی حدود میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کو طلبی کا حکم بھیج دو کہ تاریخ معین پر جمع ہو جائیں۔ اس کے ساتھ خود بڑے سازوسامان سے فوجی تیاریاں شروع کیں۔ ہر طرف نقیب دوڑاۓ کہ اضلاع عرب میں جہاں جہاں کوئی رئیس صاحب تدبیر شاعر خطیب اہل الراۓ ہو۔ فورا دربار خلافت میں آۓ چونکہ حج کا زمانہ آچکا تھا۔ خود مکہ معظمہ کو روانہ ہوۓ اور حج سے فارغ نہیں ہوۓ تھے کہ ہر طرف سے قبائل عرب کا طوفان امنڈ آیا۔ سعد بن ابی وقاص نے تین ہزار آدمی بھیجے جن میں سے ایک ایک شخص تیغ و علم کا مالک تھا حضرموت صدف، مذحج، قیس، غیلان کے بڑے بڑے سردار ہزاروں کی جمعیت لے کر آۓ مشہور قبائل میں سے یمن کے ہزار بنو تمیم و رباب کے چار ہزار بنواسد کے تین ہزار آدمی تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ حج کر کے واپس آئے تو جہاں تک نگاہ جاتی تھی آدمیوں کا جنگل نظر آتا تھا۔ حکم دیا کہ لشکر نہایت ترتیب سے آراستہ ہو۔ میں خود سپہ سالار بن کر چلوں گا۔ چنانچہ ہراول پر طلحہ میمنہ پر زبیر میسرہ پر عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنھم کو مقرر کیا۔ فوج آراستہ ہو چکی تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بلا کر خلافت کے کاروبار سپرد کئے اور خود مدینہ سے نکل کر عراق کی طرف روانہ ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی اس مستعدی سے ایک عام جوش پیدا ہو گیا۔ اور سب نے مرنے پر کمریں باندھ لیں۔ صرار جو مدینہ سے تین میل پر ایک چشمہ ہے وہاں پہنچ کر مقام کیا۔ اور یہ اس سفر کی گویا پہلی منزل تھی۔ چونکہ امیرالمومنین کا خود معرکہ جنگ میں جانا بعض مصلحتوں کے لحاظ سے مناسب نہ تھا۔ اس لئے صرار میں فوج کو جمع کر کے تمام لوگوں سے رائے طلب کی۔ عوام نے یک زبان ہو کر کہا کہ امیرالمومنین! یہ مہم آپ کے بغیر سرنہ ہوگی۔ لیکن بڑے بڑے صحابہ نے جو معاملہ کا نشیب و فراز سمجھتے تھے اس کے خلاف راۓ دی۔ عبدالرحمن بن عوف نے کہا کہ لڑائی کے دونوں پہلوں ہیں۔ اگر خدا نخواستہ شکست ہوئی اور آپ کو کچھ صدمہ پہنچاتو پھر اسلام کا خاتمہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کھڑے ہو کر ایک پراثر تقریر کی۔ اور عوام کی طرف خطاب کر کے کہا کہ میں تمہاری راۓ پر عمل کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اکابر صحابہ اس راۓ سے متفق نہیں غرض اس پر اتفاق ہو گیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ خود سپہ سالار بن کر نہ جاںٔیں۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ اور کوئی شخص اس بار گراں کے اٹھانے کے قابل نہیں ملتا۔ ابوعبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ اور خالد رضی اللہ تعالی عنہ شام کی مہمات میں مصروف تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے درخواست کی گئی تو انہوں نے انکار کیا۔ لوگ اسی حیص بیص میں تھے کہ دفعتًہ عبدالرحمن بن عوف نے اٹھ کر کہا کہ میں نے پالیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کون! بولے کہ ”سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ ۔
سعد رضی اللہ تعالی عنہ بڑے مرتبہ کے صحابی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں تھے۔ ان کی بہادری اور شجاعت بھی مسلم تھی۔ لیکن تدبیر جنگ اور سپہ سالاری کی قابلیتوں کی طرف سے اطمینان نہ تھا۔ اس بنا پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی تردد تھا۔ لیکن جب تمام حاضرین نے عبدالرحمن بن عوف کی راۓ کی تائید کی چاروناچار منظور کیا۔ تاہم احتیاط کے لحاظ سے لشکر کی تمام مہمات قبضہ اختیار میں رکھیں۔ چنانچہ ان معرکوں میں اول سے آخر تک فوج کی نقل و حرکت حملہ کا بندوبست لشکر کی ترتیب فوجوں کی تقسیم وغیرہ کے متعلق ہمیشہ احکام بھیجتے رہتے تھے۔ اور ایک کام بھی ان کی خاص ہدایت کے بغیر انجام نہیں پاسکتا تھا۔ یہاں تک کہ مدینے سے عراق تک کی فوج کی منزلیں بھی خود حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ہی نے نامزد کردی تھیں۔ چنانچہ مؤرخ طبری نے نام بنام ان کی تصریح کردی ہے۔
غرض سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے لشکر کا نشان چڑھایا اور مدینہ منورہ سے روانہ ہوۓ۔م17-18منزلیں طے کر کے ثعلبہ پہنچے اور یہاں مقام کیا ثعلبہ کوفہ سے تین منزل پر ہے اور پانی کی افراط اور موقع کی خوبی کی وجہ سے یہاں مہینے کے مہینے بازار لگتا تھا۔ تین مہینے یہاں قیام رہا۔ مثٰنی موضع ذی قار میں آٹھ ہزار آدمی لئے پڑے تھے۔ جن میں خاص بکربن وائل کے چھ ہزار جوان تھے۔ مثنٰی کو سعد کی آمد کا انتظار تھا کہ ساتھ ہو کر کوفہ پر بڑھیں۔ لیکن جسر کے معرکے میں جو زخم کھائے تھے بگڑتے گئے اور آخر اس صدمے سے انتقال کیا۔ سعدنے ثعلبہ سے چل کر مشراف میں ڈیرے ڈالے یہاں مثنی کے بھائی ان سے آکر ملے اور مثنی نے جو ضروری مشورے دیے تھے سعد سے بیان کئے چونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا حکم تھا کہ فوج کا جہاں پڑاؤ ہو وہاں کے تمام حالات لکھ کر آئیں۔ سعد نے اس مقام کا نقشہ لشکر کا پھیلاو ، فرودگاہ کا ڈھنگ رسد کی کیفیت ان تمام حالات سے ان کو اطلاع دی وہاں سے ایک مفصل فرمان آیا۔ جس میں بہت سی ہدایتیں اور فوج کی ترتیب کے قواعد تھے۔ سعد نے ان احکام کے موافق پہلے تمام فوج کا جائزہ لیا۔ جو کم و بیش تیسں ہزار ٹھری۔ پھر میمنہ و میسرہ کی تقسیم کر کے ہر ایک پر جدا جدا افسر مقرر کئے۔
آئندہ پارٹ میں مزید قصہ ملاحضہ کرے۔۔۔۔۔
Read More:
0 Comments