مسلمانوں کی طرف بڑے بڑے افسر مارے گئے لیکن مثٰنی کی ثابت قدمی کی وجہ سے لڑائی کا پلہ اس طرف بھاری رہا۔ عجم کا قلب خوب جم کر لڑا۔ مگر کل کا کل برباد ہو گیا---------
واقعہ بویب رمضان14 ہجری (635)
اس شکست نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو سخت برہم کیا۔ اور نہایت زور شور سے حملہ کی تیاریاں کیں۔ تمام عرب میں خطباء اور نقیب بھیج دیٔے جنہوں نے پر جوش تقریروں سے تمام عرب میں ایک آگ لگادی۔ اور ہر طرف سے عرب کے قبائل امنڈ آۓ۔ قبیلہ ازد کا سردار مخنف بن سلیم سات سو سواروں کو ساتھ لے کر آیا۔ بنو تمیم کے ہزارو آدمی حصین بن معبد کے ساتھ آۓ۔ حاتم طائی کے بیٹے عدی ایک جمعیت کثیر لے کر پہنچے اسی طرح قبیلہ رباب بنو کنانہ فثم بنوحنظلہ بنوقتبہ کے بڑے بڑے جھتے اپنے اپنے سرداروں کے ساتھ آۓ یہ جوش یہاں تک پھیلا کہ ”نمرو تغلب کے سرداروں نے جو مذہباً عیسائی تھے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ ”آج عرب و عجم کا مقابلہ ہے اس قومی معرکہ میں ہم بھی قوم کے ساتھ ہیں۔ ان دونوں سرداروں کے ساتھ ان کے قبیلے کے ہزاروں آدمی تھے اور عجم کے مقابلہ کے جوش میں لبریز تھے۔
اتفاق سے انہی دنوں جریر بجلی دربار خلافت میں حاضر ہوا۔ یہ ایک مشہور سرادر تھا۔ اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر درخواست کی تھی کہ اپنےقبیلے کا سردار مقرر کر دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ درخواست منظور کر لی تھی لیکن تعمیل کی نوبت نہیں آئی تھی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس حاضر ہوا تو انہوں نے عرب کے تمام عمال کے نام احکام بھیج دیئے کہ جہاں جہاں اس قبیلے کے آدمی ہوں تاریخ معین پر اس کے پاس پہنچ جائیں، جریر یہ جمعیت اعظم لے کر دوبارہ مدینہ میں حاضر ہوۓ ۔
ادہر مثنی نے عراق کے تمام سرحدی مقامات پر نقیب بھیج کر ایک بڑی فوج جمع کر لی تھے ایرانی جاسوسوں نے یہ خبریں شاہی دربار میں پہنچائیں پوران دخت نے حکم دیا کہ فوج خاصہ سے بارہ ہزار سوار انتخاب کئے جائیں۔ اور مہران بن مہرویہ ہمدانی افسر مقرر کیا جاۓ ۔ مہران کے انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ اسنے خود عرب میں تربیت پائی تھی اور اس وجہ سے وہ عرب کے زور قوت کا اندازہ کر سکتا تھا ۔ کوفہ کے قریب بویب نام ایک مقام تھا۔ اسلامی فوجوں نے یہاں پہنچ کر ڈیرے ڈالے ۔ مہران پایہ تخت سے روانہ ہو کر سیدھا بویب پہنچا اور دریاۓ فرات کو بیچ میں ڈال کر خیمہ زن ہوا ۔ صبح ہوتے ہی فرات اتر کر بڑے سروسامان سے لشکر آرائی شروع کی۔ مثٰنی نے نہایت ترتیب سے صف درست کی فوج کے مختلف حصے کر کے بڑے بڑے ناموروں کی ماتحتی میں دیے چنانچہ میمنہ پر مذعور میسرہ پر نسیر پیدل پر مسعود والنٹیر پر عاصم گشت کی فوج پر عصمہ کو مقرر کیا۔ لشکر آراستہ ہو چکا تو مثٰنی نے اس سرے سے اس سرے تک ایک بار چکر لگایا۔ اور ایک ایک علم پاس کھڑے ہو کر کہا ”بہادرو! دیکھنا تمہاری وجہ سے تمام عرب پر بدنامی کا داغ نہ آۓ۔
اسلامی فوج کی لڑائی کا یہ قاعدہ تھا کہ سردار تین دفعہ اللہ اکبر کہتا تھا۔ پہلی تکبیر پر فوج حربہ و ہتھیار سے آراستہ ہو جاتی تھی۔ دوسری تکبیر پر لوگ ہتھیار تول لیتے تھے ۔ اور تیسرے نعرہ پر حملہ کر دیا جاتا تھا۔ مثٰنی نے دوسری تکبیر ابھی نہیں کہی تھی کہ ایرانیوں نے حملہ کر دیا۔ یہ دیکھ کر مسلمان ضبط نہ کر سکے اور کچھ لوگ جوش میں آکر صف سے آگے نکل گئے۔ مثٰنی نے غصے میں آکر ڈاڑھی دانتوں میں دبائی اور پکارے کے ”خدا کے لئے اسلام کو رسوا نہ کرو“ اس آواز کے ساتھ فورا لوگ پیچھے ہٹے اور جس شخص کی جہاں جگہ تھی وہیں آکر جم گیا چوتھی تکبیر کہہ کر مثنٰی نے حملہ کیا۔
عجمی اس طرح گرجتے ہوئے بڑھے کہ تمام میدان گونج اٹھا مثنٰی نے فوج کو للکارا کہ گھبرانا نہیں یہ نامردانہ غل ہے ۔ عیسائی سرداروں کو جو ساتھ تھے بلا کر کہا کہ تم اگر چہ عیسائی ہو لیکن ہم قوم ہو۔ اور آج قوم کا معاملہ ہے ۔ میں مہران پر حملہ کرتا ہوں تم ساتھ رہنا۔ انہوں نے لبیک کہا مثٰنی نے ان سرداروں کو دونوں بازوں پر لے کر حملہ کیا۔ اور پہلے حملہ میں مہران کا میمنہ توڑ کر قلب میں گھس گئے ۔ عجمی دوبارہ سنبھلے اور اس طرح ٹوٹ کر گرے کہ مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے۔مثٰنی نے للکارا کہ ”مسلمانو! کہاں جاتے ہو میں یہ کھڑا ہوں“۔اس آواز کے ساتھ سب پلٹ پڑنے مثٰنی نے ان کو سمیٹ کر حملہ کیا۔ عین اس حالت میں مسعود جو مثٰنیکے بھائی اور مشہور بہادر تھے زخم کھا کر گرے۔ ان کی رکاب کی فوج بیدل ہوا چاہتی تھی ،مثٰنی نے للکارا کہ ”مسلمانو! میرا بھائی مارا گیا تو کچھ پروا نہیں، شرفاء یوں ہی جان دیا کرتے ہیں۔ دیکھو تمہارے علم جھکنے نہ پائیں۔ خود مسعود نے گرتے گرتے کہا کہ میرے مرنے سے بے دل نہ ہونا“۔
دیر تک بڑی گھمسان کی لڑائی رہی۔ انس بن ہلال جو عیسائی سردار تھا اور بڑی جانبازی سے لڑ رہا تھا زخم کھا کر گرا مثٰنی نے خود گھوڑے سے اتر کر اس کو گود میں لیا۔ اور اپنے بھائی مسعود کے برابر لٹا دیا۔ مسلمانوں کی طرف بڑے بڑے افسر مارے گئے لیکن مثٰنی کی ثابت قدمی کی وجہ سے لڑائی کا پلہ اس طرف بھاری رہا۔ عجم کا قلب خوب جم کر لڑا۔ مگر کل کا کل برباد ہو گیا۔ شہر براز جو ایک مشہور افسر تھا۔ قرط کے ہاتھ سے مارا گیا۔ تاہم سپہ سالار مہران ثابت قدم تھا۔ اور بڑی بہادری سے تیخ بکف لڑ رہا تھا۔ کہ قبیلہ تغلب کے ایک نوجوان نے تلوار سے اس کا کام تمام کر دیا۔ مہران گھوڑے سے گرا تو نوجوان نے اچھل کر گھوڑے کی پیٹھ پر جا بیٹھا اور فخر کے لہجہ میں پکارا۔ میں تغلب کا نوجوان ہوں اور رئیس عجم کا قاتل ہوں“۔
مہران کے قتل پر لڑائی کا خاتمہ ہو گیا۔ عجم نہایت ابتری سے بھاگے ۔ مثٰنی نے فورا پل کے پاس پہنچ کر رستہ روک لیا کہ عجم بھاگ کر نہ جانے پائیں مورخین کا بیان ہے کہ کسی لڑائی نے اس قدر بے شمار لاشیں اپنی یادگار میں نہیں چھوڑیں۔ چنانچہ مدتوں کے بعد جب مسافروں کا ادھر گزر ہوا۔ تو انہوں نے جا بجا ہڈیوں کے انبار پاۓ۔ اس فتح کا ایک خاص اثر یہ ہوا کہ عربوں پر عجم کا جو رعب چھایا ہوا تھا جا تا رہا۔ان کو یقین ہو گیا کہ اب سلطنت کسٰری کے اخیر دن آگئے۔ خودمثٰنی کا بیان ہے کہ اسلام سے پہلے میں بارہا عجم سے لڑ چکا ہوں۔ اس وقت سو عجمی ہزار عرب پر بھاری تھے ۔ لیکن آج ایک عرب دس عجمی پر بھاری ہے ۔
اس معرکہ کے بعد مسلمان عراق کے تمام علاقہ میں پھیل پڑے۔
0 Comments