Khilafat e Hazrat Umar Aur Waqia Baweeb Urdu Article_3

سفرا گھوڑے اڑاتے ہوۓ سیدھے مدائن پہنچے راہ میں جدھر سے گزر ہوتا تھا۔ تماشائیوں کی بھیڑ لگ جاتی تھی۔ یہاں تک کہ آستانہ سلطنت کے قریب پہنچ کر ٹھرے۔ اگرچہ ان کی ظاہری صورت یہ تھی کہ گھوڑوں پر زین اور ہاتھوں میں ہتھیار تک نہ تھا---------------

Waqia-Baweeb-Urdu-Article-3

 امرائے اعشار میں سے ستّر وہ صحابہ تھے جو غزوہ بدر میں شریک تھے، تین سو وہ جو بیت الرضوان میں حاضر تھے اس قدر وہ بزرگ جو فتح مکہ میں شریک تھے سات سو ایسے جو صحابہ نہ تھے لیکن صحابہ کی اولاد تھے۔


سعد شراف ہی میں تھے کہ دربار خلافت سے ایک اور فرمان آیا جس کا مضمون یہ تھا کہ شراف سے آگے بڑھ کر قادسیہ (کوفہ سے ۳۵ میل پر ایک چھوٹا سا شہر ہے) میں مقام کرو اور اس طرح مورچے جماؤ کہ سامنے عجم کی زمین اور پشت پر عرب کے پہاڑ ہوں تاکہ فتح ہو تو جہاں تک چاہو بڑھتے جاؤ اور خدانخواستہ دوسری صورت پیش آئے تو ہٹ کر پہاڑوں کی پناہ میں آسکو۔


قادسیہ نہایت شاداب نہروں اور پلوں کی وجہ سے محفوظ مقام تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ جاہلیت میں ان مقامات سے اکثر گذرتے تھے۔ اور اس موقع کی ہیت اور کیفیت سے واقف تھے۔ چنانچہ سعد رضی اللہ تعالی عنہ کو جو فرمان بھیجا اس میں قادسیہ کا موقع اور محل بھی مذکور تھا۔ تاہم چونکہ پرانا تجربہ تھا۔ سعد رضی اللہ تعالی عنہ کو لکھا کہ قادسیہ پہنچ کر سرزمین کا پورا نقشہ لکھ بھیجو کیونکہ میں نے بعض ضروری باتین اسی وجہ سے نہیں لکھیں کہ موقع اور مقام کے پورے حالات مجھ کو معلوم نہ تھے۔ سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے نہایت تفصیل سے موقع جنگ کی حدود اور حالات لکھ کر بھیجے۔ دربار خلافت سے روانگی کی اجازت آئی۔ چنانچہ سعد شراف سے چل کر عذیب پہنچے۔ یہاں عجمیوں کا میگزین رہا کرتا تھا جو مفت ہاتھ آیا۔ قادسیہ پہنچ کر سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے ہر طرف ہرکارے دوڑاۓ کہ غنیم کی خبریں لائیں۔ انہوں نے آکر بیان کیا کہ رستم (پسر فرخ زاد) جو آرمینیہ کا رںٔیسں ہے سپہ سالار مقرر ہوا ہے۔ اور مدائن سے چل کر ساباط میں ٹھہرا ہے سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو اطلاع دی وہاں سے جواب آیا کہ لڑائی سے پہلے لوگ سفیر بن کر جائیں اور ان کو اسلام کی رغبت دلائیں۔ سعد نے سرداران قبائل میں سے چودہ نامور اشخاص انتخاب کئے جو مختلف صفتوں کے لحاظ سے تمام عرب میں انتخاب تھے۔ عطارد بن حاجب، شعث بن قیس، حارث بن حسان، عاصم بن عمر، عمرو بن معدی کرب، مغیرہ بن شعبہ، مثٰنی بن حارثہ قدو قامت اور ظاہری رعب وداب کے لحاظ سے تمام عرب میں مشہور تھے۔ نعمان بن مقرن، بسر بن ابی رہم، حملہ بن جوتیہ، حنظلہ الربیعی التمیمی، فرات بن حیان العجل، عدی بن سهیل، مغیرہ بن زارارہ، عقل و تدبیر اور حرم و سیاست میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔


ساسانیوں کا پاۓ تخت قدیم زمانے میں اضطخر تھا۔ لیکن نوشیروان نے مدائن کو دارالسلطنت قرار دیا تھا۔ اس وقت سے وہی پایہ تخت چلا آتا تھا۔ یہ مقام سعد کی فرودگاه یعنی قادسیہ سے 30 40 میل کے فاصلے پر تھا۔ سفرا گھوڑے اڑاتے ہوۓ سیدھے مدائن پہنچے راہ میں جدھر سے گزر ہوتا تھا۔ تماشائیوں کی بھیڑ لگ جاتی تھی۔ یہاں تک کہ آستانہ سلطنت کے قریب پہنچ کر ٹھرے۔ اگرچہ ان کی ظاہری صورت یہ تھی کہ گھوڑوں پر زین اور ہاتھوں میں ہتھیار تک نہ تھا۔ تاہم بیباکی اور دلیری ان کے چہروں سے ٹپکتی تھی اور تماشائیوں پر اس کا اثر پڑتا تھا۔ گھوڑے جو سواری میں تھے رانوں سے نکلے جاتے تھے اور بار بار زمین پر ٹاپ مارتے تھے۔ چنانچہ ٹاپوں کی آواز یزدگرد کے کان تک پہنچی اور اس نے دریافت کیا کہ یہ کیسی آواز ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے سفراء آئے ہیں۔ یہ سن کر بڑے ساز و سامان سے دربار سجایا اور سفرا کو طلب کیا۔ یہ لوگ عربی جبے پہنے کاندھوں پر یمنی چادریں ڈالے ہاتھوں میں کوڑے لئے موزے چڑھاۓ دربار میں داخل ہوئے پچھلے معرکوں نے تمام ایران میں عرب کی دھاک بٹھا دی تھی۔ یزدگرد نے سفیروں کو اس شان سے دیکھا تو اس پر ہیبت طاری ہوئی۔


ایرانی عموماً ہر چیز سے فال لینے کے عادی تھے یزدگرد نے پوچھا کہ عربی میں چادر کو کیا کہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ برد (فارسی کے معنی کے لحاظ سے کہا ”جہاں برد " پھر کوڑے کی عربی پوچھی۔ ان لوگوں نے کہا کہ ”سوط“ وہ سوخت سمجھا اور بولا کہ ”پارس راسو خشند" ان بد فالیوں پر سارا دربار پر ہم ہوا جاتا تھا۔ لیکن شاہی آداب کے لحاظ سے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ پھر سوال کیا کہ تم اس ملک میں کیوں آئے ہو؟ نعمان بن مقرن جو سرگرہ تھے جواب دینے کے لئے آگے بڑھے پہلے مختصر طور پر اسلام کے حالات بیان کئے پھر کہا کہ ہم تمام دنیا کے سامنے دو چیزیں پیش کرتے ہیں۔ جزیہ یا تلوار یزدگرد نے کہا تم کو یاد نہیں کہ تمام دنیا میں تم سے زیادہ ذلیل اور بد بخت کوئی قوم نہ تھی ، تم جب بھی ہم سے سرکشی کرتے تھے تو سرحد کے زمینداروں کو حکم بھیج دیا جا تا تھا اور وہ تمہارا بل نکال دیتے تھے۔


اس پر سب نے سکوت کیا۔ لیکن مغیرہ بن زرارہ ضبط نہ کر سکے اٹھ کر کہا کہ ”یہ لوگ اپنے رفیقوں کی طرف اشارہ کر کے رؤسائے عرب ہیں۔ علم وقار کی وجہ سے زیادہ گوںٔی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے جو کچھ کہا یہی زیبا تھا۔ لیکن کہنے کے قابل باتیں رہ گئیں۔ ان کو میں بیان کرتا ہوں یہ سچ ہے کہ ہم بد بخت اور گمراہ تھے۔ آپس میں کٹتے مرتے تھے۔ اپنی لڑکیوں کو زندہ گاڑھ دیتے تھے۔ لیکن خدائے تعالی نے ہم پر ایک پیغمبر بھیجا جو حسب و نسب میں ہم سے ممتاز تھا اول اول ہم نے اس کی مخالفت کی۔ وہ سچ کہتا تھا تو ہم جھٹلاتے تھے وہ آگے بڑھتا تو ہم پیچھے ہٹتے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ اس کی باتوں نے دلوں میں اثر کیا وہ جو کچھ کہتا تھا خدا کے حکم سے کہتا تھا۔ اور جو کچھ کرتا تھا خدا کے حکم سے کرتا تھا۔ اس نے ہم کو حکم دیا کہ اس مذہب کو تمام دنیا کے سامنے پیش کرو۔ جو لوگ اسلام لائیں وہ تمام حقوق میں تمہارے برابر ہیں جن کو اسلام سے انکار ہو اور جزیہ پر راضی ہوں وہ اسلام کی حمایت میں ہیں۔ جس کو دونوں باتوں سے انکار ہو اس کے لئے تلوار ہے“۔ یزد گرد غصے سے بیتاب ہو گیا اور کہا کہ اگر قاصدوں کا قتل جائز ہوتا تو تم میں سے کوئی زندہ بچ کر نہ جاتا۔ یہ کہہ کر مٹی کا ٹوکرا منگوایا۔ اور کہا تم میں سب سے معزز کون ہے؟ عاصم بن عمر نے بڑھ کر کہا ”میں ملازموں نے ٹوکرا ان کے سر پر رکھ دیا وہ گھوڑا اڑاتے ہوئے سعد کے پاس پہنچے کہ "فتح مبارک! دشمن نے اپنی زمین خود ہم کو دے دی۔

آئندہ پارٹ میں مزید قصہ ملاحضہ کرے۔۔۔۔۔


Post a Comment

0 Comments