حضرت عمر فاروق ؓ کا آغاز

عمر نام ابو حفظ کنیت فاروق لقب والد کا نام خطاب اور والدہ کا نام خطمہ تھا۔ پورا سلسلۂ نسب عدی بن کعب سے جاکے ملتا ہے جو مرہ کے بھائی اور رسول اللہ کے اجداد میں سے ہے---------------

حضرت عمر فاروق ؓ کا آغاز


 حضرت عمر ہجرت نبوی سے 40 برس پہلے   پیدا ہوئے ۔ 

آپ کے بچپن کے حال کے بارے میں مزید معلومات لکھی نہیں ملتی بلکی کم سنی کے حال بھی کچھ زیادہ عام نہیں ہے۔ جب جوانی کا آغاز ہوا تو ان شریفانہ مشغلو میں مسرف ہو گئے جو زیادہ تر عرب کے شریف اور معزز گھرانو کے لوگ کیا کرتے ہیں۔

 جیسے کی نصب دانی، سپاہ گری، پہلوانی اور خطاب میں مہارت    پیدا کی، خاص طور پر شہسواری میں کمال حاصل کیا۔ اس زمانے میں انہیں پڑھنا اور لکھنا بھی سکھ لیا تھا۔ اس لیے زمانہ جاہلیت میں آپ ان لوگو میں تھے جو پڑھنا اور لکھنا جانتے تھے۔



 پورا سلسلہ نسب یہ ہے۔ 

عمر بن الخطاب ین نفیل بن عبدالفری بن رباح بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوی بن فہر بن مالک۔ 

عدی کے دوسرے بھائی مرہ تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعداد  سے ہیں ۔ اس لحاظ سے حضرت عمر کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر مل جاتا ہے۔ 

حضرت عمر کا خاندان ایام جاہلیت میں نہایت ممتاز تھا۔ آپ کے جد اعلی عدی عرب کے باہمی تنازعات میں ثالث مقرر ہوا کرتے تھے اور قریش کو کسی قبیلہ کے ساتھ کوئی ملکی معاملہ پیش آ جا تا تو سفیر بن کر جایا کرتے تھے اور یہ دونوں منصب عدی کے خاندان میں نسلا بعد نسلاً چلے آرہے تھے۔ ددھیال کی طرح حضرت عمر نا نہیال کی طرف سے بھی نہایت معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے آپ کی والدہ ختمہ ہاشم بن مغیرہ کی بیٹی تھیں اور مغیرہ اس درجہ کے آدمی تھے کہ جب قریش کسی قبیلہ سے نبردآزمائی کے لئے جاتے تھے تو فوج کا اہتمام ان ہی کے متعلق ہوتا تھا۔ 

حضرت عمر ہجرت نبوی سے چالیس برس قبل   پیدا ہوۓ۔ ایام طفولیت کے حالات پر دہ اختفاء میں ہیں ۔ کم سنی کے حالات بھی بہت کم معلوم ہیں ۔شباب کا آغاز ہوا تو ان شریفانہ مشغلوں میں مشغول ہوۓ جو شرفاۓ عرب میں عموما رائج تھے، مینی نسب دانی ، سپہ گری، پہلوانی اور خطابت میں مہارت  پیدا کی ۔ خصوصاً  شہواری میں کمال حاصل کیا۔ اس زمانے میں انہوں نے لکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیا تھا۔ چنانچہ زمانہ جاہلیت میں جولوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے ۔ ان میں سے ایک   حضرت عمر فاروق بھی تھے۔ 

حضرت عمر تعلیم وتعلم سے فارغ ہونے کے بعد فکر معاش کی طرف متوجہ ہوئے۔

تعلیم وتعلم سے فارغ ہونے کے بعد فکر معاش کی طرف متوجہ ہوئے ۔عرب میں لوگوں کا ذریعہ معاش زیادہ تر تجارت تھا۔ اس لئے انہوں نے بھی یہی شغل اختیار کیا اوراس سلسلہ میں دور دور ممالک کا سفر کیا۔ اس سے آپ کو بڑے تجربے اور فوائد حاصل ہوئے۔

 آپ کی خودداری بلند حوصلگی تجربہ کاری اور معاملہ فہمی اس کا نتیجہ تھی اور ان ہی اوصاف کی بناپر قریش نے آپ کو سفارت کے منصب پر مامور کر دیا تھا۔ قبائل میں جب کوئی   پیچیدگی   پیدا ہو جاتی تھی تو آپ ہی سفیر بن کر جاتے تھے اور اپنے غیر معمولی فہم و تدبر اور تجربہ سے اس عقدہ کوحل کرتے تھے۔

 جس وقت ریگستان عرب میں آفتاب اسلام پرتوا  فگن ہوا اور مکہ کی گھاٹیوں سے توحید کی صدا بلند ہوئی۔ حضرت عمر کے لئے یہ آواز نہایت نا مانوس تھی اس لئے سخت برہم ہوئے۔ یہاں تک کہ جس کی نسبت معلوم ہو جا تا تھا کہ یہ مسلمان ہو گیا ہے اس کے دشمن بن جاتے ۔

 ان کے خاندان کی ایک کنیز بسینہ نامی مسلمان ہوگئی تھی اس کواتنا مارتے کہ مارتے مارتے تھک جاتے ۔ بسینہ کے سوا اور جس جس پر قابو پا زدوکوب سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ لیکن اسلام کانشہ  ا یسا نہ تھا جو پڑھ کر اتر جا تا۔ ان تمام سختیوں پر ایک شخص کو بھی وہ اسلام سے بددل نہ کر سکے۔

قبول اسلام

آپ چالیس مردوں اور گیارہ عورتوں کے بعد اسلام لائے ۔ آپ سابقین اور عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ آپ حضورﷺ کے خسر بھی ہیں۔ آپ کا شمار علماء اور زہادصحابہ میں ہوتا ہے۔ لگ بھگ پانچ سواڑتالیس حدیثیں بھی آپ سے مروی ہیں جن کو زیادہ تر حضرت عثمان، حضرت علی ، حضرت علی ,حضرت سعد ,حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت ابوذر، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبد اللہ بن زبیر ، حضرت انس ، ابو ہریرہ ، حضرت عمرو بن العاص ، حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہم اجمعین اور کچھ دوسرے حضرات نے روایت کیا ہے۔

 ابن عباس کی روایت ہے کہ جس روز حضرت عمر فاروق ایمان لاۓ ،ان روز مشرکین نے کہا۔
” آج مسلمانوں نے ہم سے سارابدلہ لے لیا ہے۔“

عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے۔
’’جس روز حضرت عمر فاروق ایمان لاۓ ۔اس روز سے اسلام عزت ہی پا تا چلا گیا۔ آپ کا اسلام گو یافتخ اسلام تھی اور آپ کی ہجرت گو یا نصرت تھی اور آپ کی امامت رحمت تھی۔ ہماری مجال بیٹھی کہ ہم کعبہ شریف میں نماز پڑھ سکیں لیکن جب حضرت عمر فاروق ایمان لاۓ تو آپ نے مشرکین سے اس وقت جدال اور معرکہ آرائی کی کہ مجبور ان کو ہمیں نماز پڑھنے کی اجازت دینا پڑی۔“

Read More:

Post a Comment

0 Comments