حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ایمان لانے نے اسلام کی تاریخ میں نیا دور پیداکردیا۔ اس وقت تک60 - 50 آدمی اسلام لاچکے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قبول اسلام اور ہجرت
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا ستائیسواں سال تھا کہ عرب میں آفتاب رسالت طلوع ہوا۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور اسلام کی صدا بلند ہوئی۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھرانے میں زید کی وجہ سے توحید کی آواز بالکل نامانوس نہیں رہی تھی۔ چنانچہ سب سے پہلے زید کے بیٹے سعید اسلام لاے سعید کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی بہن فاطمہ سے ہوا تھا۔ اس تعلق سے فاطمہ بھی مسلمان ہو گئیں اس خاندان میں ایک اور معزز شخص نعیم بن عبداللہ نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔
لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ابھی تک اسلام سے بیگانہ تھے۔ ان کے کانوں میں جب یہ صدا پہنچی تو سخت برہم ہوئے۔ یہاں تک کہ قبیلے میں جو لوگ اسلام لا چکے تھے ان کے دشمن بن گئے۔
لبینہ ان کے خاندان میں ایک کنیز تھی جس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اس کو بے تحاشہ مارتے اور مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے ذرا دم لے لوں تو پھر ماروں گا۔ لبینہ کے سوا اور جس جس پر قابو چلتا تھا زود کوب سے دریغ نہیں کی لیکن اسلام کا نشہ ایسا تھا کہ جس کو چڑھ جاتا تھا اترتا نہ تھا ان تمام سختیوں پر ایک شخص کو بھی وہ اسلام سے بددل نہ کر سکے۔ آخر مجبور ہو کر فیصلہ کیا کہ (نعوز باللہ ) خودبانی اسلام کا قصہ پاک کر دیں، تلوار کمر سے لگا کر سیدھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلے۔
راہ میں اتّفاقًا نعیم بن عبداللہ مل گئے۔ ان کے تیور دیکھ کر پوچھا خیرتو ہے؟ بولے کہ محمد کا فیصلہ کرنے جاتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لے لو خود تمہاری بہن اور بہنوئی اسلام لاچکے ہیں۔
فورا پلٹے اور بہن کے ہاں پہنچے وہ قرآن پڑھ رہی تھیں۔ ان کی آہٹ پاکر چپ ہو گئیں۔ اور قرآن کے اجزاء چھپائے لیکن آواز ان کے کانوں میں پڑ چکی تھی۔ بہن سے پوچھا کہ یہ کیا آواز تھی۔ بہن نے کہا کہ کچھ نہیں۔ بولے کہ نہیں میں سن چکا ہوں کہ تم دونوں مرید ہو گئے ہو۔ یہ کہہ کر بہنوئی سے دست و گریبان ہو گئے۔ اور جب ان کی بہن بچانے کو آئیں تو ان کی بھی خبر لی۔ یہاں تک کہ ان کا بدن امولسان ہو گیا۔ اسی حالت میں ان کی زبان سے نکلا کہ ”عمر! جوبن آئے کرو۔ لیکن اسلام اب دل سے نہیں نکل سکتا"۔ ان الفاظ نے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دل پر خاص اثر کیا۔ بہن کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھا۔ ان کے بدن سے خون جاری تھا۔ یہ دیکھ کر اور بھی رقت ہوئی فرمایا کہ تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھ کو بھی سناؤ۔ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے قرآن کے اجزاءلا کر سامنے رکھ دیئے ۔ اٹھا کر دیکھا تو یہ سورۃ
تھی۔
سبح لله مافي السموت والارض وهو العزيز الحكيم-
ایک ایک لفظ پر ان کا دل مرعوب ہو تا جا تا تھا۔ یہاں تک کہ جب اس آیت پر پہنچے
امنوا بالله ورسولی
تو بے اختیار پکار اٹھے کہ
اشهدان لا الہ الا اللہ واشهدان محمد رسول اللہ۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارقم کے مکان میں جو کوہ صفا کی تلی میں واقع تھا پناہ گزین تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے آستانہ مبارک پر پہنچ کر دستک دی۔ چونکہ شمشیر بکف گئے تھے ۔ اور اس تازہ واقعہ کی کسی کو اطلاع نہ تھی اس لئے صحابہ کو ترددہوا۔ لیکن حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ آنے دو۔۔۔ مخلصانہ آیا ہے تو بہتر ورنہ اس کی تلوار سے اس کا سر قلم کر دیا جائے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اندر قدم رکھا تو رسول اللہ خود آگے بڑھے اور ان کا دامن پکڑ کر فرمایا کیوں عمر کس ارادہ سے آیا ہے؟ "
نبوت کی پر رعب آواز نے ان کو کپکپا دیا نہایت خضوع کے ساتھ عرض کیا کہ ایمان لانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بے ساختہ اللہ اکبر پکار اٹھے اور ساتھ ہی تمام اصحاب نے مل کر زور سے اللہ اکبر کا نعرہ مارا کہ مکہ کی تمام پہاڑیاں گونج اٹھیں (انساب الاشراف بلاذری و طبقات ابن سعد واسد الغابه ابن عساکر و کامل ابن الاثیر)
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ایمان لانے نے اسلام کی تاریخ میں نیا دور پیداکردیا۔ اس وقت تک60 - 50 آدمی اسلام لاچکے تھے ۔ عرب کے مشہور بہادر حضرت حمزه سیدالشہداء نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ تاہم اپنے مذہبی فرائض علانیہ نہیں ادا کر سکتے تھے ۔ اور کعبہ میں تو نماز پڑھنا بالکل ناممکن تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے اسلام کے ساتھ دفعتہً یہ حالت بدل گئی۔ انہوں نے اپنا اسلام ظاہر کیا کافروں نے اول اول ان پر بڑی شدت کی۔ لیکن وہ برابر ثابت قدمی سے مقابلہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ کعبہ میں جاکر نماز ادا کی ابن ہشام نے اس واقعہ کو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ کی زبانی ان الفاظ میں روایت کیا۔
فلما اسلم عمر قاتل قريشاً حتى صلى عندالكعبة وصلينامعه
”جب عمر رضی اللہ تعالی عنہ اسلام لائے تو قریش سے لڑے یہاں تک کہ کعبہ میں نماز پڑھی اور انکے ساتھ ہم نے بھی پڑھی"۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے اسلام کاواقعہ سنہ نبوی کے چھٹے سال میں واقع ہوا۔
Read More:
0 Comments