حضرت عمر کی مدینہ ہجرت

 حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بیس آدمیوں کے ساتھ مدینہ کا قصد کیا۔آپ نے مدینہ کی حجرت سے پہلے بیت اللہ کا طواف کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت عمر کی مدینہ ہجرت

حضرت عمر کی ہجرت

اہل قریش ایک مدت تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی نبوت کو بے پروائی کی نگاہ سے دیکھتے رہے ۔ لیکن اسلام کو جس قدر شیوع ہوتا جاتا تھا ان کی بے پروائی غصہ اور ناراضی سے بدلتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ جب ایک جماعت کثیر اسلام کے حلقے میں آگئی تو قریش نے زور اور قوت کے ساتھ اسلام کو مٹانا چاہا-

حضرت ابوطالب کی زندگی تک تو علانیہ کچھ نہ کر سکے۔ لیکن ان کے انتقال کے بعد کفار ہر طرف سے اٹھ کھڑے ہوۓ اور جس جس مسلمان پر قابو ملا اس طرح ستانا شروع کیا کہ اگر اسلام کے جوش اور وارفتگی کا اثر نہ ہوتا تو ایک شخص بھی اسلام پر ثابت قدم نہیں رہ سکتا تھا۔

یہ حالت پانچ چھ برس تک رہی اور یہ زمانہ اس سختی سے گذارا کہ اس کی تفصیل ایک نہایت دردانگیز داستان ہے۔ اس اثناء میں مدینہ منورہ کے ایک معزز گروہ نے اسلام قبول کر لیا تھا۔

اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جن لوگوں کو کفار کے ستم سے نجات نہیں مل سکتی وہ مدینہ کو ہجرت کر جائیں سب سے پہلے ابوسلمہ عبداللہ بن اشہل رضی اللہ تعالی عنہم پھر حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ موذن اور عمار بن یاسر رضی اللہ تعالی عنہ نے ہجرت کی ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بیس آدمیوں کے ساتھ مدینہ کا قصد کیا۔ صحیح بخاری میں ۲٠ کا عدد مذکور ہے۔ لیکن ناموں کی تفصیل نہیں۔ 

ابن ہشام نے بعضوں کے نام لکھے اور وہ یہ ہیں۔

حضرت عمر کے ساتھ جن لوگوں نے ہجرت کی

زید بن خطاب، سعید بن زید بن خطاب، خنیس بن حذافہ، سہمی، عمرو بن سراقہ، عبداللہ بن سراقہ، واقد بن عبداللہ تمیمی، خولی بن ابی خولی، مالک بن ابی خولی، ایاس بن بکیر، عاقل بن بکیر، عامربن بکیر، خالد بن بکیر رضی اللہ تعالی عنم ان میں سے زید حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے بھائی سعید بھتیجے اور خنیس داماد اور باقی دوست احباب تھے۔

حضرت عمر کی قیام گاہ

مدینہ منورہ کی وسعت چونکہ کم تھی مہاجرین زیادہ تر قبا میں جو مدینہ سے دو تین میل ہے، قیام کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بھی یہیں رفاعہ بن عبدالمنذر کے مکان پر ٹھرے۔ قباء کو عوالی بھی کہتے ہیں۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ان کے فردو گاہ کا نام عوالی ہی لکھا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد اکثر صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے ہجرت کی ۔ یہاں تک کہ (622ء)13 سن ہجری نبوی میں جناب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ چھوڑا اور آفتاب رسالت مدینہ کے افق سے طالع ہوا۔


مهاجرین اور انصار میں اخوت

مدینہ پہنچ کر سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کے رہنے سہنے کا انتظام کیا انصار کو بلا کر ان میں اور مہاجرین میں برادری قائم کی جس کا اثر یہ ہے کہ جو مہاجر جس انصاری کا بھائی بن جاتا انصاری مہاجر کو اپنی جائیداد اسباب نقدی تمام چیزوں میں سے آدھا آدھا بانٹ دیتا تھا۔ اس طرح تمام مہاجرین اور انصار بھائی بھائی بن گئے۔ اس رشتہ کے قائم کرنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم طرفین کے رتبہ اور حیثیت کا فرق مراتب خطوط رکھتے تھے یعنی جو مہاجر جس درجے کا ہوتا اس رتبے کے انصاری کو اسکا بھائی بناتے تھے۔

حضرت عمر کے اسلامی بھائ

چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو جس کا بھائی قرار دیا۔ ان کا نام عتبان بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ تھا۔ جو قبیلہ بنو سالم کے ایک سردار تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے  تشریف لانے پر بھی اکثر صحابہ نے قباء ہی میں قیام رکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بھی یھیں مقیم رہے۔ لیکن یہ معمول کر لیا کہ ایک دن ناغہ دے کر بالالتزام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتے اور دن بھر خدمت اقدس میں حاضر رہے۔ ناغہ کے دن یہ بندوبست کیا تھا کہ ان کے برادر اسلامی عتبان بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ اور جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے جا کر روایت کرتے تھے چنانچہ بخاری نے متعدد ابواب مثلا باب العلم باب النكاح وغیرہ میں سمنًا اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ 


مدینہ پہنچ کر اس بات کا وقت آیا کہ اسلام کے فرائض و ارکان محدود اور معین کئے جائیں کیونکہ مکہ معظمہ میں جان کی حفاظت ہی سب سے بڑا فرض تھا یہی وجہ تھی کہ زکوۃ روزہ نماز جمعہ نماز عیدین صدقہ فطر کوئی چیرہ وجود میں نہیں آئی تھی۔ نمازوں میں بھی یہ اختصار تھا کہ مغرب کے سوا باقی نمازوں میں صرف دور رکعتیں تھیں۔ یہاں تک کہ اعلان کا طریقہ بھی نہیں معین ہوا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا انتظام کرنا چاہا۔ یہودیوں اور عسائوں کے ہاں نماز لئے بوق اور ناقوس کا رواج تھا۔ اس لئے صحابہ نے یہیں راۓ دی ابن ہشام نے روایت کی ہیں کی یہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجویز تھی۔ بہرحال یہ مسئلہ زیر بحث تھا اور کوئی رائے قرار نہیں پائی تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ آنکلے اور انہوں نے کہا کہ ایک آدمی اعلان کرنے کے لئے کیوں نہ مقرر کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو اذان کا حکم دیا۔(صحیح بخاری کتاب الاذان)

اذان کا طریقہ حضرت عمر کی رائے کے موافق قائم ہوا

یہ بات لحاظ کے قابل ہے کہ اذان نماز کا بڑا دیباچہ اور اسلام کا بڑا شعار ہیں۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے اس سے زیادہ کیا فخر کی بات ہو  سکتی ہے کہ یہ شعار اعظم انہی کی رائے کے موافق قائم ہوا۔


Read More:

Post a Comment

0 Comments