حضرت عمر اور غزوہ بدر - Hazrat Umar (Gazwa e Badr) Urdu Article

 غزوہ بدر میں اسلام کی فتح نے اسلامی حکومت کو عرب کی ایک عظیم قوت بنا دیا. غزوہ بدر میں مسلمانوں کا سب سے بڑا اور اصل سبب نصرت الہی تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حضرت عمر اور غزوہ بدر


آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ کو ہجرت کی تو قریش کو خیال ہوا کہ اگر مسلمانوں کا جلد استیصال نہ کر دیا جائے تو وہ اور زور پکڑ جائیں گے۔ اس خیال سے انہوں نے مدینہ پر حملہ کی تیاریاں شروع کیں۔ تاہم ہجرت کے دوسرے سال تک کوئی قابل ذکر معرکہ نہیں ہوا صرف اس قدر ہوا کہ دو تین دفعہ قریش چھوٹے چھوٹے گروہ کے ساتھ مدینہ کی طرف بڑھے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر پا کر ان کو روکنے کے لئے تھوڑی تھوڑی فوجیں بھیجی اور وہ وہیں رک گئے۔



غزه بدر سن  2 / حجری (622)


2 حجری (622) میں بدر کا واقعہ پیش آیا جو نہایت مشہور معرکہ ہے۔ اس کی ابتداء یوں ہوئی کہ ابو سفیان جو قریش کا سردار تھا تجارت کا مال لے کر شام سے واپس آرہا تھا کہ راہ میں یہ غلط خبر سن کر کہ مسلمان اس پر حملہ کرنا چاہتے ہیں قریش کے پاس نامہ بھیجا اور ساتھ ہی تمام مکہ امڑ آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ خبرسن کر تین سو آدمیوں کے ساتھ مدینے سے روانہ ہوئے۔ عام مورخین کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینے سے نکلنا صرف قافلہ لوٹنے کی غرض سے تھا۔ لیکن یہ امر محض غلط ہیں۔ قران مجید سے زیادہ کوںٔی قطعی شہادت نہیں ہو سکتی اس میں جہاں اس واقعہ کا ذکر ہے یہ الفاظ ہیں۔



کما اخرجک ریک بن منک بالحق و ان فريداً من المومنينل كارهون بجادلونك في الحق بعد ماتين كانمايسالون الىا لموت وهم ينظرون والهمدكم الله احد الطائفتين انها لكم وتودون ان قيرقات الشوكد تكون لكم -



"جیسا کہ تم کو تیرے پروردگار نے تیرے گھر (مدینہ) سے سچاںٔی پر نکالا اور بے شک مسلمانوں کا ایک گروہ ناخوش تھا وہ تجھ سے سچی بات پر جھگڑتے تھے۔ بعد اس کے سچی بات ظاہر ہو گئی گویا کہ وہ موت کی طرف ہانکے جاتے ہیں اور وہ اس کو دیکھ رہے ہیں۔ اور جب کہ خدا دو گروہ میں سے ایک کا تم سے وعدہ کرتا تھا۔اور تم چاہتے تھے کہ جس گروہ میں کوی زور نہیں ہے وہ ہاتھ آۓ۔"



1 ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے نکلنا چاہا تو مسلمانوں کا ایک گروہ ہچکچاتا تھا اور سمجھتا تھا کہ موت کے منہ میں جانا ہے۔


2‌ ۔ مدینہ سے نکلنے کے وقت کافروں کے دو گروہ تھے ایک خبريات الشوك یعنی ابوسفیان کا کاروان تجارت اور دوسرا قریش کا گروہ جو مکہ سے حملہ کرنے کے لئے سروسامان کے ساتھ نکل چکا تھا۔



اس کے علاوہ ابو سفیان کے قافلہ میں  40 آدمی تھے ، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینے سے تین سو بہادروں کے ساتھ نکلے تھے۔ تین سو آدمی 40 آدمی کے مقابلہ کو کسی طرح موت کے منہ میں جانا نہیں خیال کر سکتے تھے۔ اس لئے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قافلے کے لوٹنے کے لئے نکلتے تو خدا ہرگز قرآن مجید میںں یہ نہ فرماتا کہ مسلمان ان کے مقابلے کو موت کے منہ میں جانا سمجھتے تھے۔



بہر حال ،8 رمضان 2 ہجری کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم 313 آدمیوں کے ساتھ جن میں سے 83 مہاجرین اور باقی انصار تھے مدینہ سے روانہ ہوئے قریش کے ساتھ 950 کی جمعیت تھی جن میں بڑے بڑے مشہور بہادر شریک تھے مقام بدر میں جو مدینہ منورہ سے 6 منزل ہے معرکہ ہوا۔ اور کفار کو شکست ہوئی۔ مسلمانوں میں سے 14 آدمی شہید ہوئے ان میں 6 مہاجر اور 8 انصار تھے قریش کی طرف 70 مقتول اور اسّی گرفتار ہونے مقتولین میں ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ شہید اور بڑے بڑے روساۓ مکہ تھے اور ان کے قتل ہونے سے قریش کا زور ٹوٹ گیا۔



حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اگرچہ اس معرکہ میں رائے تدبیر، جانبازی، و پامردگی کے لحاظ سے ہر موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست و بازو رہے۔ لیکن ان کی شرکت کی مخصوص مخصوصیات یہ ہیں۔ 


1 - قریش کے تمام قبائل اس معرکہ میں آئے لیکن بنوعدی یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے قبیلے میں سے ایک متنفس بھی شریک جنگ نہیں ہوا اور یہ امر جہاں تک قیاس کیا جاسکتا ہے صرف حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے رعب و داب کا اثر تھا۔


2 ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ان کے قبیلے اور خلفاء کے 12 آدمی شریک جنگ تھے۔ 


3 ۔ سب سے پہلے جو شخص اس معرکہ میں شہید ہوا وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا غلام تھا۔


4 ۔ عاصی بن ہشام بن مغیرہ جو قریش کا ایک معزز سردار اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی کا ماموں تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ سے مارا گیا۔ 


 یہ بات حضرت عمر  کی خصوصیات میں شمار کی گئی ہے کہ اسلام کے معاملات میں قرابت اور محبت کا اثر ان پر کبھی غالب نہیں آسکتا تھا۔ چنانچہ یہ واقعہ اس کی پہلی مثال ہے۔


اس معرکہ میں مخالف کی فوج میں سے جو لوگ زندہ گرفتار ہوئے ان کی تعداد کم و بیش 70 تھی۔ اور ان میں سے اکثر قریش کے بڑے بڑے سردار تھے۔ مثلاً حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ, عقیل(حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بھائی) ابوالعاص بن الربيع ,ولید بن الولید, ان سرداروں کا ذلت کے ساتھ گرفتار ہو کر آنا ایک عبرت خیز سماں تھا جس نے مسلمانوں کے دل پر بھی اثر کیا۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مبارکہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالی عنہا کی نظر جب ان پر پڑی تو بے اختیار بول اٹھیں کہ


"اعطتیم بایدیکم هلا متم کراما"


تم مطیع ہو کر آۓ ہو۔ شریفوں کی طرح لڑ کر مر نہیں گئے۔



قیدیوں کے معاملے میں حضرت عمر کی راۓ


اس بناء پر یہ بحث پیدا ہوئی کہ ان لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاۓ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے تمام صحابہ سے رائے لی۔ اور لوگوں نے مختلف رائیں دیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ یہ اپنے ہی بھائی بند ہیں اس لئے فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔



حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اختلاف کیا اور کہا کہ اسلام کے معاملے میں رشتہ و قرابت کو دخل نہیں ان سب کو قتل کر دینا چاہئے ۔ اور اس طرح کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے عزیز کو آپ قتل کر دے علی عقیل کی گردن ماریں حمزہ عباس کا سراڑائیں اور فلاں شخص جو میرا عزیز ہے اس کا کام میں تمام کروں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شان رحمت کے اقتضاء سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے پسند کی۔ اور فدیہ لے کر چھوڑ دیا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔



‍‍‍‌"ماكان لنبي ان يكون له اسرى حتى يدخن في الارض الخ"



"کسی پیغمبر کے لئے یہ زیبا نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ خوب خونریزی نہ کرلے“۔



بدر کی فتح نے اگرچہ قریش کے زور کو گھٹایا لیکن اس سے اور نئی مشکلات کا ایک سلسلہ شروع ہوا مدینہ منورہ اور اس کے اطراف پر ایک مدت سے یہودیوں نے قبضہ کر رکھا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو ملکی انتظامات کے سلسلے میں سب سے پہلے کام یہ کیا کہ یہودیوں سے معاہدہ کیا کہ " مسلمانوں کے برخلاف دشمن کو مدد نہ دیں گے اور کوئی دشمن مدینہ پر چڑھ آے تو مسلمانوں کی مد کریں گے" لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بدر سے فتحیاب آئے تو ان کو ڈر پیدا ہوا کہ مسلمان زور پکڑ کر ان کے برابر کے حریف نہ بن جائیں۔ چنانچہ خود چھیڑ شروع کی ۔ اور کہا کہ ”قریش والے فن حرب سے نا آشنا تھے ۔ ہم سے کام پڑتا تو ہم دکھا دیتے کہ لڑنا کس کو کہتے ہیں" نوبت یہاں تک پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو معاہدہ کیا تھا توڑ ڈالا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال ,2 ہجری میں ان پر چڑھائی کی ۔ اور بالآخر وہ گرفتار ہو کرمدینہ سے جلاوطن کر دے گئے ۔ اسلام کی تاریخوں میں یہودیوں سے لڑائیوں کا جو ایک متصل سلسلہ نظر آتا ہے اس کی ابتداء اسی سے ہوئی تھی ۔


Read More:

Post a Comment

0 Comments