قریش بدر میں شکست کھا کر انتقام کے جوش میں بیتاب تھے ۔ ابوسفیان نے عہد کرلیا تھا کہ جب تک بدر کا انتقام نہ لوں گا غسل تک نہ کروں گا۔ چنانچہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قریش بدر میں شکست کھا کر انتقام کے جوش میں بیتاب تھے ۔ ابوسفیان نے عہد کرلیا تھا کہ جب تک بدر کا انتقام نہ لوں گا غسل تک نہ کروں گا۔ چنانچہ ذوالحجہ 2 ہجری میں دو سوشتر سواروں کے ساتھ مدینہ کے قریب پہنچ کر دھوکے سے دو مسلمانوں کو پکڑا۔ اور ان کو قتل کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ نے تعاقب کیا۔ لیکن ابوسفیان نکل گیا تھا۔ اس قسم کے چھوٹے چھوٹے واقعات اور بھی پیش آتے رہے یہاں تک کہ شوال 3 ہجری (625ء) میں جنگ احد کا مشہور واقعہ ہوا۔
غزوہ احد 3 ہجری
اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ عکرمہ بن ابی جہل اور دیگر بہت سے سرداران قریش نے ابوسفیان سے جا کر کہا کہ اگر تم مصارف کا ذمہ اٹھاؤ تو اب بھی بدر کا انتقام لیا جاسکتا ہے ۔ ابو سفیان نے قبول کیا۔ اور اسی وقت حملہ کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ کنانہ اور تہامہ کے تمام قبائل بھی ساتھ ساتھ ہو گئے۔ ابو سفیان ان کا سپہ سالار بن کر بڑے سروسامان کے ساتھ مکہ سے روانہ ہوا۔ اور ماہ شوال بدھ کے دن مدینہ منورہ کے قریب پہنچ کر مقام کیا۔ آنحضرت کی رائے تھی کہ مدینہ میں ٹھہر کر قریش کا حملہ روکا جائے۔ لیکن صحابہ نے نہ مانا اور آخر مجبور ہو کر جمعہ کے دن مدینہ سے نکلے، قریش کی تعداد تین ہزار تھی جس میں 200 سوار اور 700 زرہ پوش تھے۔
میمنہ کے افسر خالد بن الولید اور میسرہ کے عکرمہ بن ابی جہل تھے ۔ (اس وقت تک یہ دونوں صاحب اسلام نہیں لائے تھے) ادھر کل 700 آئیں تھے جن میں سوزرہ پوش اور صرف دو سوار تھے۔ مدینہ سے قریبا تین میل پر احد ایک پہاڑ ہے۔ اس کے دامن میں دونوں فوجیں صف آرا ہوئیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عبداللہ بن زبیر کو 50 تیراندازوں کے ساتھ فوج کے عقب پر متعین کیا کہ ادھر سے کفار حملہ نہ کرنے پائیں۔ 7 شوال ہفتہ کے دن لڑائی شروع ہوئی سب سے پہلے زبیر نے اپنی رکاب کی فوج کو لے کر حملہ کیا۔ اور قریش کے میمنہ کو شکست دی، پھر عام جنگ شروع ہوئی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ابو دجانہ دشمن کی فوج میں گھس گئے ۔ اور ان کی صفیں الٹ دیں۔ لیکن فتح کے بعد لوگ غنیمت پر ٹوٹ پڑے، تیراندازوں نے سمجھا کہ اب معرکہ ختم ہو چکا ہے۔ اس خیال سے وہ بھی لوٹنے میں مصروف ہو گئے۔ تیراندازوں کا ہٹنا تھا کہ خالد نے دفعتًا عقب سے بڑے زورو شور کے ساتھ حملہ کیا مسلمان چونکہ ہتھیار ڈال کر غنیمت میں مصروف ہو چکے تھے۔ اس ناگہانی زدکو نہ روک سکے کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھروں اور تیروں کی بوچھاڑ کی۔ یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے۔ پیشانی پر زخم آیا اور رخساروں میں مغفر کی کڑیاں چبھ گئیں۔ اس کے ساتھ آپ ایک گڑھے میں گر پڑے۔ اور لوگوں کی نظر سے چھپ گئے ۔ اس برہمی میں یہ غل پڑ گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مارے گئے ۔ اس خبر نے مسلمانوں کے استقلال کو متزلزل کر دیا۔ اور جو جہاں تھاوہیں سراسیمہ ہو کر رہ گیا۔
اس امر میں اختلاف ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اخیر تک کس قدر صحابہ ثابت قدم رہے صحیح مسلم میں حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ احد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف سات انصار اور دو قریشی یعنی سعد اور طلحہ رہ گئے تھے۔ نسائی اور بیہقی میں بسند صحیح منقول ہے کہ گیارہ انصار اور طلحہ کے سوا اور کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں رہا تھا۔ محمد بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے 14 آدمیوں کا نام لیا ہے ۔ اسی طرح اور بھی مختلف روایتیں ہیں۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ان روایتوں میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ لوگ جب ادھر ادھر پھیل گئے تو کافروں نے دفعتاً عقب سے حملہ کیا۔ اور مسلمان سراسیمہ ہو کر جو جہاں تھا وہ وہیں رہ گیا۔ پھر جس طرح موقع ملتا گیا لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچتے گئے۔
تمام روایتوں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہو تا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی تو کچھ تو ایسے سراسیمہ ہوۓ کہ انہوں نے مدینہ آکر دم لیا۔ کچھ لوگ جان پر کھیل کر لڑتے رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جینا بیکار ہے۔ بعضوں نے مجبور مایوس ہو کر سپر ڈال دی کہ اب لڑنے سے کیا فائدہ ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس تیسرے گروہ میں تھے علامہ طبری میں بسند متصل جس کے رواۃ حمید بن سلمہ محمد بن اسحاق قاسم بن عبدالرحمن بن رافع ہیں۔ روایت کی ہے کہ اس موقع پر جب انس بن نضر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ اور چند مهاجرین اور انصار کو دیکھا کہ مایوس ہو کر بیٹھ گئے ہیں۔ تو پوچھا کہ بیٹھے کیا کرتے ہو ان لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ نے جو شہادت پائی۔ انس رضی اللہ تعالی عنہ بولے کہ رسول اللہ کے بعد زندہ رہ کر کیا کرو گے تم بھی انہی کی طرح لڑ کر مر جاؤ۔ یہ کہہ کر کفار پر حملہ آور ہوۓ۔ اور شہادت حاصل کی۔ قاضی ابویوسف نے خود حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی زبانی نقل کیا ہے کہ انس بن نضر میرے پاس سے گذرے اور مجھ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا گزری ۔ میں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آپ شہید ہوئے ۔ انس رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ رسول اللہ شہید ہوۓ تو ہوۓ خدا تو زندہ ہے۔ یہ کہہ کر تلوار میان سے کھینچ لی۔ اور اس قدر لڑے کہ شہادت حاصل کی۔ ابن ہشام میں ہے کہ انس رضی اللہ تعالی عنہ نے اس واقعہ میں ستر زخم کھائے۔
طبری کی روایت میں یہ امر لحاظ کے قابل ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھیوں میں طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کا نام بھی ہے۔ اور یہ مسّلم ہے کہ اس معرکہ میں ان سے زیادہ کوئی ثابت قدم نہیں رہا تھا۔ بہر حال یہ امر تمام روایتوں سے ثابت ہے کہ سخت برہمی کی حالت میں بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ میدان جنگ سے نہیں ہٹے۔ اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زندہ ہونا معلوم ہوا تو فورًا خدمت میں پہنچے طبری اور سیرت ہشام میں ہے۔
"فلما عرف المسلمون رسول الله نهضواب، ونهض نحوا الشعب معہ علی بن ابی طالب و ابوبکر ابی قحافہ وعمر بن الخطاب وطلحہ بن عبیدالله والزبير بن العوام والحارث ابن صمـة"
"پھر جب مسلمانوں نے رسول اللہ کو دیکھا تو آنحضرت کے پاس پہنچے اور آپ لوگوں کو لے کر پہاڑ کے درہ پر چڑھ گئے اس وقت آپ کے ساتھ حضرت علی، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، طلحہ بن عبید اللہ، زبیر بن العوام اور حارث بن صمتہ رضی اللہ تعالی عنم تھے"۔
علامہ بلاذری صرف ایک مؤرخ ہیں جنہوں نے انساب الاشراف میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے حال میں یہ لکھا ہے۔
وكان ممن انكشف يوم احدفغفرله
"یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ان لوگوں میں تھے جو احد کے دن بھاگ گئے تھے۔ لیکن خدا نے ان کو معاف کر دیا"۔
علامہ بلاذری نے ایک اور روایت نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جب اپنی خلافت کے زمانے میں لوگوں کے روزینے مقرر کئے تو ایک شخص کے روزینے کی نسبت لوگوں نے کہا اس سے زیادہ مستحق آپ کے فرزند عبداللہ ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا نہیں کیونکہ اس کا باپ احد کی لڑائی میں ثابت قدم رہا تھا۔ اور عبداللہ کا باپ (یعنی حضرت عمر) نہیں رہا تھا۔ لیکن یہ روایت قطع نظر اس کے درائیتہً غلط ہے کیونکہ معرکہ جہاد سے بھاگنا ایک ایسا ننگ تھا جس کو کوئی شخص علانیہ تسلیم نہیں کر سکتا تھا۔ اصول روایت کے لحاظ سے بھی ہم اس پر اعتبار نہیں کر سکتے علامہ موصوف نے جن رواۃ کی سند سے یہ روایت بیان کی ہے۔ ان میں عباس بن عبداللہ الباکساۓ اور غیض بن اسحاق ہیں اور دونوں مجہول الحال ہیں۔ اس کے علاوہ اور تمام روایتیں اس کے خلاف
اس بحث کے بعد ہم پھر اصل واقعہ کی طرف آتے ہیں۔
خالد ا یک دستہ فوج کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھے رسول اللہ اس وقت تیس (30) صحابہ کے ساتھ پہاڑ پر تشریف رکھتے تھے۔ خالد کو آتا دیکھ کر فرمایا کہ خدایا۔ یہ لوگ یہاں تک نہ آنے پائیں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے چند مہاجرین اور انصار کے ساتھ آگے بڑھ کر حملہ کیا اور ان لوگوں کو ہٹا دیا۔
ابوسفیان سالار قریش نے درہ کے قریب پہنچ کر پکارا کہ اس گروہ میں محمد ہیں یا نہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ کوئی جواب نہ دے۔ ابوسفیان نے پھر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہم کا نام لے کر کہا کہ یہ دونوں اس مجمع میں ہیں یا نہیں؟ اور جب کسی نے کچھ جواب نہ دیا تو بولا کہ ”ضرور یہ لوگ مارے گئے" حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے رہا نہ گیا پکار کر کہا ”اور شمن خدا! ہم سب زندہ ہیں" ابوسفیان نے کہا "اعل هبل ”اے ہبل (ایک بت کا نام تھا) بلند ہو" رسول اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا, "جواب دو 'الله اعلى واجل' یعنی خدا بلند و برتر ہے"۔ (سیرت ہشام صفحہ ۵۸۳ وطبری صفحه ۱۴۱۵)
حضرت حفصہ کاعقد رسول اللہ ﷺ کے ساتھ
اس سال حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ شرف حاصل ہوا کہ ان کی صاحبزادی حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئیں۔ حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کا نکاح جاہلیت میں خنیس بن خذافہ کے ساتھ ہوا۔ خیس کے انتقال کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے خواہش کی کہ حفصہ کو اپنے نکاح میں لائیں۔ انہوں نے کچھ جواب نہ دیا ۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے درخواست کی وہ بھی چپ رہے۔ کیونکہ ان دونوں صاحبوں کو معلوم ہو چکا تھا کہ خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ 3 ہجری شعبان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ رضی اللہ تعالی عنها سے نکاح کیا۔
0 Comments