خلافت حضرت عمر اور فتوحات عراق (حصہ اول) - Battles Of Iraq

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ مسند خلافت پر بیٹھے تو سب سے پہلے عراق کی مہم پر توجہ کی بیعت خلافت کے لئے تمام اطراف ودیا ر سے بیشمار آدمی آۓ تھے ۔ اور تین دن تک ان کا تانتا بندھا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

Battles of Iraq and rashidun army

فتوحات عراق


فارس کی حکومت کا چوتھا دور جو ساسانی کہلا تا ہے نوشیزان عادل کی وجہ سے بہت نام آور ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اسی کا پوتا پرویز تخت نشین تھا۔ اس مغرور بادشاہ کے زمانے تک سلطنت نہایت قوی اور زور آور رہی لیکن اس کے مرنے ساتھ دفعتًۂ ایسی ابتری پیدا ہو گئی کہ ایوان حکومت مدت تک متزلزل رہا۔ شیرویہ اس کے بیٹے نے کل آٹھ مہینے حکومت کی اور اپنے تمام بھائیوں کو جو کم و بیش پندرہ تھے قتل کرا دیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا اردشیر 7 برس کی عمر میں تخت پر بیٹھا لیکن ڈیڑھ برس کے بعد دربار کے ایک افسر نے اس کو قتل کر دیا۔ اور آپ بادشاہ بن بیٹھا یہ سنہ ہجری کا بارہواں سال تھا۔ چند روز کے بعد درباریوں نے اس کو قتل کر کے جوان شیر کو تخت نشین کیا۔ وہ ایک برس کے بعد قضا کر گیا۔ اب چونکہ خاندان میں یزدگرد کے سوا جو نہایت صغیر السن تھا۔ اولاد ذکور باقی نہیں رہی تھی۔ پوران دخت کو اس شرط پر تخت نشین کیا گیا کہ یزدگرد سن شعور کو پہنچ جائے گا تو وہی تخت و تاج کا مالک ہو گا۔

پرویز کے بعد جو انقلابات حکومت ہوتے رہے اس کی وجہ سے ملک میں جا بجا بے امنی پھیل گئی پوران کے زمانے میں یہ مشہور ہو گیا کہ فارس میں کوئی وارث تاج و تخت نہیں رہا۔ براۓ نام ایک عورت کو ایوان شاہی میں بٹھا رکھا ہے ۔ اس خبر کی شہرت کے ساتھ عراق میں قبیلہ وائل کے دو سرداروں مثٰنی شیبانی اور سوید عجلی نے تھوڑی سی جمعیت بہم پہنچا کر عراق کی سرحد حیرۃ وابلہ کی طرف غارت گری شروع کی۔ یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کا زمانہ تھا اور خالد رضی اللہ تعالی عنہ سیف اللہ یمامہ اور دیگر قبائل عرب کی مہمات سے فارغ ہو چکے تھے۔ مثٰنی نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عراق پر حملہ کرنے کی اجازت حاصل کی مثٰنی خودا گرچہ اسلام لا چکے تھے ۔ لیکن اس وقت تک ان کا تمام قبیلہ عیسائی یا بت پرست تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت سے واپس آکر انہوں نے اپنے قبیلہ کو اسلام کی ترغیب دی اور قبیلہ کا قبیلہ مسلمان ہو گیا۔ ان نو مسلموں کے ایک بڑے گروہ نے  عراق کا رخ کیا۔ ادھر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے خالد کو مدد کے لئے بھیجا۔ خالد رضی اللہ تعالی عنہ نے عراق کے تمام سرحدی مقام فتح کر لئے ۔ اور حیرۃ پر علم فتح نصب کیا۔ یہ مقام کوفہ سے تین میل ہے ۔ اور چونکہ یہاں نعمان بن منذر نےحوزنق نامی ایک مشہور محل بنایا تھاوہ ایک یادگار مقام خیال کیا جا تا تھا۔

عراق کی یہ فتوحات خالد رضی اللہ تعالی عنہ کے بڑے بڑے کارناموں پر مشتمل ہیں۔ خالد رضی اللہ تعالی عنہ نے مہمات عراق کا خاتمہ کر دیا ہوتا۔ لیکن چونکہ ادھر شام کی مهم در پیش تھی اور جس زور شور سے وہاں عیسائیوں نے لڑنے کی تیاریاں کی تھیں اس کے مقابلے کا وہاں پو را سامان نہ تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے ربیع الثانی 13 ہجری میں خالد رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم بھیجا کہ فورا شام کو روانہ ہوں اور مثٰنی کو اپنا جانشین کرتے جائیں ادھر خالد رضی اللہ تعالی عنہ روانہ ہوئے اور عراق کی فتوحات دفعتہً رک گئیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ مسند خلافت پر بیٹھے تو سب سے پہلے عراق کی مہم پر توجہ کی بیعت خلافت کے لئے تمام اطراف و دیار سے بیشمار آدمی آۓ تھے ۔ اور تین دن تک ان کا تانتا بندھا رہا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس موقع کو غنیمت سمجھا۔ اور مجمع عام میں جہاد کا وعظ کہا۔ لیکن چونکہ لوگوں کا عام خیال تھا کہ عراق حکومت فارس کا پایہ تخت ہے ۔ اور وہ خالد رضی اللہ تعالی عنہ کے بغیر فتح نہیں ہو سکتا۔ اس لئے سب خاموش رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کئی دن تک وعظ کہا لیکن کچھ اثر نہ ہوا۔ آخر چوتھے دن اس جوش سے تقریر کی کہ حاضرین کے دل ہل گئے ۔ مثٰنی شیبانی نے اٹھ کر کہا کہ ”مسلمانو! میں نے مجوسیوں کو آزمالیا ہے ۔ وہ مرد میدان نہیں ہیں عراق کے بڑے بڑے اضلاع کو ہم نے فتح کر لیا ہے ۔ اور عجم ہمارا لوہامان گئے ہیں " حاضرین میں سے ابوعبیدہ ثقفی بھی تھے جو قبیلہ ثقیف کے مشهور سردار تھے وہ جوش میں آکر اٹھ کھڑے ہوۓ اور کہا کہ انالھنا یعنی اس کام کے لئے میں حاضر ہوں۔ ابوعبیدہ کی ہمت نے تمام حاضرین کو گرما دیا۔ اور ہر طرف سے غلغلہ اٹھا کہ ہم بھی حاضر ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے مدینہ منورہ اور مضافات سے ہزار آدمی انتخاب کئے اور ابو عبیدہ کو سپہ سلار مقرر کیا۔

ابوعبیدہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل نہ تھا۔ یعنی صحابی نہ تھے اس وجہ سے ان کی افسری پر کسی کو خیال ہوا یہاں تک کہ ایک شخص نے آزادانہ کہا کہ عمر! صحابہ میں سے کسی کو یہ منصب دو فوج میں سینکڑوں صحابہ ہیں اور ان کا افسر بھی صحابی ہی ہو سکتا ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کی طرف دیکھا اور کہا کہ ” تم کو جو شرف تھا وہ ہمت اور استقلال کی وجہ سے تھا۔ لیکن اس شرف کو تم نے خود کھو دیا ہے ہرگز نہیں ہو سکتا کہ جو لڑنے سے جی چراۓ وہ افسر مقرر کئے جائیں تاہم چونکہ صحابہ کی دلجوئی ضروری تھی، ابوعبیدہ کو ہدایت کی کہ ان کا ادب ملحوظ رکھنا اور ہر کام میں ان سے مشورہ لینا۔

حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد میں عراق پر جو حملہ ہوا اس نے ایران کو چونکا دیا تھا۔ چنانچہ پوران دخت نے رستم کو جو فرخ زاد گورنر خراسان کا بیٹا اور نہایت شجاع اور صاحب تدبیر تھا دربار میں طلب کیا۔ اور وزیر حرب مقرر کر کے کہا کہ تو سیاہ سپید کامالک ہے یہ کہہ کر اس کے سر پر تاج رکھا۔ اور درباریوں کو جن میں تمام امرا اور اخیان سلطنت شامل تھے۔ تاکید کی کہ رستم کی اطاعت سے کبھی انحراف نہ کریں۔ چونکہ اہل فارس اپنی نااتفاقیوں کا نتیجہ دیکھ چکے تھے ۔ انہوں نے دل سے ان احکام کی اطاعت کی اس کا یہ اثر ہوا کہ چند روز میں تمام بدانتظامیاں مٹ گئیں اور سلطنت نے پھر وہی زور وقوت پیدا کرلی جو ہرمزو پرویز کے زمانے میں اس کو حاصل تھی۔

رستم نے پہلے تدبیر ی ہ کی کہ اضلاع عراق میں ہر طرف ہرکارے اور نقیب دو ڑادیے جنہوں نے مذہبی حمیت کا جوش دلا کر تمام ملک میں مسلمانوں کے خلاف بغاوت پھیلادی۔ چنانچہ ابوعبیدہ کے پہنچنے سے پہلے فرات کے تمام اضلاع میں ہنگامہ برپا ہو گیا اور جو مقامات مسلمانوں کے قبضے میں آچکے تھے ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ پوران دخت نے رستم کی اعانت کے لئے ایک اور فوج گراں تیار کی۔ اور نرسی و جابان کو سپہ سالار مقرر کیا۔ جابان عراق کا ایک مشہور رئیس تھا۔ اور عرب سے اس کو خاص عداوت تھی۔ نری کسرٰی کا خالہ زاد بھائی تھا۔ اور عراق کے بعض اضلاع قدیم  اس کی جاگیر تھے۔ یہ دونوں افسر مختلف راستوں سے عراق کی طرف بڑھے ادھر ابوعبیدہ اور مثنی حیرۃ تک پہنچ چکے تھے کہ دشمن کی تیاریوں کا حال معلوم ہوا۔ مصلحت دیکھ کر خفان کو ہٹ آۓ جابان نمازق پہنچ کر خیمہ زن ہوا۔

ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس اثناء میں فوج کو سروسامان سے آراستہ کر لیا۔ اور پیش قدمی کر کے خود حملے کے لئے بڑھے۔ نمازق پر دونوں فوجیں صف آرا ہوئیں، جابان کے میمنه و میسرہ پر جوشن شاہ اور مردان شاہ دو مشہور افسر تھے جو بڑی ثابت قدمی سے لڑے لیکن بالآخر شکست کھائی اور عین معرکہ میں گرفتار ہو گئے۔ مردان شاہ بد قسمتی سے اس وقت قتل کر دیا گیا۔ لیکن جابان اس حیلے سے بچ گیا کہ جس شخص نے اس کو گرفتار کیا تھا وہ اس کو پہچانتا نہ تھا۔ جابان نے اس سے کہا کہ اس بڑھاپے میں میں کس کام کا ہوں مجھ کو چھوڑ دو اور  معاوضے میں مجھ سے دو جوان غلام لے لو۔ اس نے منظور کرلیا۔ بعد کو لوگوں نے جابان کو پہچانا توغل مچایا کہ ہم ایسے دشمن کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔ لیکن ابوعبیدہ نے کہا کہ اسلام میں بد عہدی جائز نہیں۔

ابوعبیدہ نے اس معرکہ کے بعد کسکر کارخ کیا۔ جہاں نرسی فوج لئے پڑا تھا۔سقاطیہ میں دونوں فوجیں مقابل ہوئیں۔ نرسی کے ساتھ بہت بڑا لشکر تھا۔ اور خود کسٰری کے دو ماموں زاد بھائی بندویہ اور تیرویہ میمنہ اور میسرہ  پر تھے۔ تاہم نرسی اس وجہ سے لڑائی میں دیر کر رہا تھا کہ پایہ تخت سے امدادی فوجیں روانہ ہو چکی تھیں۔ ابوعبیدہ کو بھی یہ خبر پہنچ چکی تھی۔انہوں نے بڑھ کر جنگ شروع کر دی۔ بہت بڑے معرکے کے بعد نرسی کو شکست فاش ہوئی۔ابوعبیدہ نے خود سقاطیہ میں مقام کیا۔ اور تھوڑی سی فوجیں ہر طرف بھیج دیں کہ ایرانیوں نے جہاں جہاں پناہ لی ہے ان کو وہاں سے نکال دیں۔

Read More:

Post a Comment

0 Comments