7 ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو پیدل اور دو سو سواروں کے ساتھ خیبر کا رخ کیا۔ خیبر میں یہودیوں نے بڑے مضبوط قلعے بنالئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنگ خیبر 7 ہجری (629ء)
7 ہجری میں خیبر کا مشہور معرکہ پیش آیا۔ قبیلہ بنو نضیر کے یہودی جو مدینہ منورہ سے نکالے گئے تھے خیبر میں جاکر آباد ہوئے۔ انہی میں سے سلام و کنانہ وغیرہ نے 5 ہجری میں قریش کو جا کر بھڑکایا۔ اور ان کو مدینہ پر چڑھالاۓ۔ اس تدبیر میں اگرچہ ان کو ناکامی ہوئی۔ لیکن انتقام کے خیال سے وہ باز نہ آئے۔ اور اس کی تدبیریں کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ 6 ہجری میں قبیلہ بنو سعد نے ان کی اعانت پر آمادگی ظاہر کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر معلوم ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیجا۔ بنو سعد بھاگ گئے اور پانچ سو اونٹ غنیمت میں ہاتھ آگۓ۔ پھر قبیلہ غطفان کو آمادہ کیا چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کی طرف بڑھے تو سب سے پہلے اسی قبیلہ نے سدراہ ہونا چاہا۔ ان حالات کے لحاظ سے ضروری تھا کہ یہودیوں کا زور توڑ دیا جاۓ ورنہ مسلمان ان کے خطرے سے مطمئن نہیں ہو سکتے تھے۔
غرض 7 ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو پیدل اور دو سو سواروں کے ساتھ خیبر کا رخ کیا۔ خیبر میں یہودیوں نے بڑے مضبوط قلعے بنالئے تھے۔ مثلا حصن ناعم، حصن قموص ، حصن صعب، وطیح اور سلالم یہ سب قلعے جلد از جلد فتح ہو گئے۔ لیکن وطیح وسلالم جن پر عرب کا مشہور بہادر مرحب قابض تھا۔ آسانی سے فتح نہیں ہو سکتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کو سپہ سالار بنا کر بھیجا۔ لیکن وہ ناکام آئے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ مامور ہوئے۔ وہ برابر دودن جا کر لڑے۔ لیکن دونوں دن ناکام رہے۔ آنحضرت نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ کل میں ایسے شخص کو علم دوں گا جو حملہ آور ہو گا اگلے دن تمام اکابر صحابہ علم نبوی کی امید میں بڑے سروسامان سے ہتھیار سجا سجا کر آۓ۔ ان میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے اور ان کا خود بیان ہے کہ میں نے کبھی اس موقع کے سوا علم برداری اور افسری کی آرزو نہیں کی، لیکن قضا و قدر نے یہ فخر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے اٹھا رکھا تھا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کی طرف توجہ نہیں کی۔ اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بلا کر علم ان کو عنایت کیا۔ مرحب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ سے مارا گیا اور اس کے قتل پر اس معرکہ کا بھی خاتمہ ہو گیا خیبر کی زمین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدوں کو تقسیم کر دی چنانچہ ایک ٹکڑا جس کا نام شمع تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے حصے میں آیا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کو خدا کی راہ میں وقف کر دیا ۔ چنانچہ صحیح مسلم باب الوقف میں یہ قصہ بہ تفصیل مذکور ہے۔ اور اسلام کی تاریخ میں یہ پہلا وقف تھا جو عمل میں آیا۔
اسی سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو 30 آدمیوں کے ساتھ قبیلہ ہوازن کے مقابلے کو بھیجا۔ ان لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی آمد سنی تو بھاگ نکلے اور کوئی معرکہ پیش نہیں آیا۔
8 حجری فتح مکہ
8 حجری میں مکہ فتح ہوا اس کی ابتداء یوں ہوئی کہ حدیبیہ میں جو صلح قرار پائی تھی اس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ قبائل عرب میں جو چاہے قریش کا ساتھ دے۔ اور جو چاہے اسلام کے سایہ امن میں آئے۔ چنانچہ قبیلہ خزاعہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خاندان بنوبکر نے قریش کا ساتھ دیا۔ ان دونوں قبیلوں میں مدت سے ان بن تھی۔اور بہت سےمعرکے ہو چکے تھے لڑائی کا سلسلہ جاری تھا کہ حدیبیہ کی صلح وقوع میں آئی اور شرائط معاہدہ کی رو سے دونوں قبیلے لڑائی سے دست بردار ہو گئے۔ لیکن چند روز بعد بنو بکر نے نقض عہد کیا۔ اور قریش نے ان کی اعانت کی۔ یہاں تک کہ خزاعہ نے حرم میں جا کر پناہ لی۔ تب بھی ان کو پناہ نہ ملی خزاعہ نے جاکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے استغاثہ کیا ابوسفیان کو یہ خبر معلوم ہوئی تو پیش بندی کے لئے مدینہ منورہ پہنچا اور آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر قریش کی طرف سے تجدید صلح کی درخواست کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہ دیا وہ اٹھ کر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اور پھر عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گیا کہ آپ اس معاملے کو طے کرادیجیے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس سختی سے جواب دیا کہ وہ بالکل ناامید ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کی تیاریاں شروع کیں۔ اور رمضان 8 ہجری میں 10 ہزار فوج کے ساتھ مدینہ سے نکلے مقام مرا لظہران میں نزول اجلال ہوا۔ تو حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر پر سوار ہو کر مکہ کی طرف چلے ادھر سے ابوسفیان آرہا تھا۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے اس سے کہا آ میں تجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے امن دلادوں ورنہ آج تیری خیر نہیں ابوسفیان نے غنیمت سمجھا اور حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ہو لیا راہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا سامنا ہوا۔ ابوسفیان کو ساتھ دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے خیال کیا کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ اس کی سفارش کے لئے جا رہے ہیں۔ بڑی تیزی سے بڑھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ مدتوں کے بعد اس دشمن اسلام پر قابو ملا ہے۔ اجازت دیجئے کہ اس کی گردن ماردوں حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ ”عمر! ابوسفیان اگر عبد مناف کے خاندان سے نہ ہوتا اور تمہارے قبیلہ کا آدمی ہو تا تو تم اس کی جان کے خواہاں نہ ہوتے۔" حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ۔ خدا کی قسم میرا باپ خطاب اسلام لا تا تو مجھ کو اتنی خوشی نہ ہوتی جتنی اس وقت ہوئی تھی۔ جب آپ اسلام لائے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی سفارش قبول کی۔ اور ابوسفیان کو امن دیا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بڑے جاہ جلال سے مکہ میں داخل ہوئے اور در کعبہ پر کھڑے ہو کر نہایت فصیح و بلیغ خطبہ پڑھا۔ جو بعینہ تاریخوں میں منقول ہے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو ساتھ لے کر مقام صفا پر لوگوں سے بیت لینے کے لئے تشریف فرما ہوۓ لوگ جوق در جوق آتے تھے اور بیعت کرتے جاتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب لیکن کسی قدر نیچے بیٹھے تھے۔ جب عورتوں کی باری آئی تو چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیگانہ عورت کے ہاتھ کو مس نہیں کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو ارشاد فرمایا کہ تم ان سے بیعت لو چنانچہ عورتوں نے انہی کے ہاتھ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔
0 Comments