آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غرض سے خندق کے ادھر ادھر کچھ فاصلہ پر اکابر صحابہ کو متعین کر دیا تھا کہ دشمن ادھر سے نہ آنے پائیں، ایک حصے پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ متعین تھے۔ چنانچہ یہاں ان کے نام کی ایک مسجد آج بھی موجود ہے۔...........................
واقعہ بنو نضیر 4, ہجری (626ء)
4 ہجری (626ء) میں بنو نضیر کا واقعہ پیش آیا مدینہ منورہ میں یہود کے جو قبائل آباد تھے۔ آنحضرت نے ان سے صلح کا معاہدہ کر لیا تھا۔ ان میں سے بنو قینقاع نے بدر کے بعد نقض عہد کیا اور اس جرم میں مدینے سے نکال دیے گئے ۔ دوسرا قبیلہ بنونضیر کا تھا۔ یہ لوگ بھی اسلام کے سخت دشمن تھے ۔ 4 ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک معاملے میں استعانت کے لئے حضرت عمر اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہم کو ساتھ لے کر ان کے پاس گئے، ان لوگوں نے ایک شخص کو جس کا نام عمرو بن حجاش تھا آمادہ کیا کہ چھت پر چڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر پتھر کی سل گرادے ۔ وہ چھت پر پڑھ چکا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہو گئی، آپ اٹھ کر چلے آئے ۔ اور کہلا بھیجا کہ تم لوگ مدینے سے نکل جاؤ انہوں نے انکار کیا۔ اور مقابلے کی تیاریاں کیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر قابو پا کر جلاوطن کر دیا۔ چنانچہ ان میں سے کچھ شام کو چلے گئے کچھ خیبر میں جا کر آباد ہوئے ۔ اور وہاں حکومت قائم کرلی۔
خیبر والوں میں اسلام بن ابی تحقیق کنانہ بن الربیع اور حیی بن اخطب بڑے بڑے معزز سردار تھے۔ یہ لوگ خیبر میں پہنچ کر مطمئن ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انتقام لینا چاہا مکہ معظمہ میں جا کر قریش کو ترغیب دی قبائل عرب کا دورہ کیا اور تمام ممالک میں ایک آگ لگادی۔
جنگ خندق یا احزاب 5، ہجری (627ء)
چند روز میں دس ہزار آدمی قریش کے علم کے نیچے جمع ہو گئے ۔ اور شوال 5 ہجری میں ابوسفیان کی سپہ سالاری میں اس سیلاب نے مدینہ کا رخ کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کر مدینہ سے باہر نکل کر سلح(مدینہ کے قریب ایک پہاڑ) کے آگے ایک خندق تیار کرائی عرب میں خندق کا رواج نہ تھا۔ اس لئے کفار کو اس کی کچھ تدبیر بن نہ آئی مجبوراً محاصرہ کر کے ہر طرف فوجیں پھیلا دیں اور رسد وغیرہ بند کر دی ایک مہینے تک محاصرہ رہا۔ کفار کبھی کبھی خندق میں اتر کر حملہ کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غرض سے خندق کے ادھر ادھر کچھ فاصلہ پر اکابر صحابہ کو متعین کر دیا تھا کہ دشمن ادھر سے نہ آنے پائیں، ایک حصے پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ متعین تھے۔ چنانچہ یہاں ان کے نام کی ایک مسجد آج بھی موجود ہے۔ ایک دن کافروں نے حملہ کا ارادہ کیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے زبیر کے ساتھ آگے بڑھ کر رو گا۔ اور ان کی جماعت درہم برہم کر دی۔ ایک اور دن کافروں کے مقابلے میں اس قدر ان کو مصروف رہنا پڑا کہ عصر کی نماز قضا ہوتے ہوتے رہ گئی۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر عرض کیا کہ آج کا فروں نے نماز پڑھنے تک کا موقع نہ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے بھی اب تک عصر کی نماز نہیں پڑھی۔
اس لڑائی میں عمرو بن عبدود عرب کا مشہور بہادر جو 500 سواروں کے برابر سمجھا جاتا تھا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ سے مارا گیا۔ اس کے مارے جانے کے بعد ادھر تو قریش میں کچھ بیدلی پیدا ہوئی ادھر نعیم بن مسعود نے جو اسلام لا چکے تھے اور کافروں کو ان کے اسلام کی خبر نہ تھی۔ جوڑ توڑ سے قریش اور یہود میں پھوٹ ڈلوادی، مختصر یہ کہ کفر کا ابرسیاہ جو مدینہ کے افق پر چھا گیا تھا روز بروز چھٹتا گیا۔ اور چند روز کے بعد مطلع بالکل صاف ہو گیا۔
واقعہ حدیبیہ 6 ہجری (628ء)
6 ہجری میں آنحضرت نے صحابہ کے ساتھ خانہ کعبہ کی زیارت کا قصد کیا۔ اور اس غرض سے کہ قریش کو لڑائی کا شبہ نہ ہو۔ حکم دیا کہ کوئی شخص ہتھیار باندھ کر نہ چلے۔ ذوالحلیفہ (مدینہ سے چھ میل پر ایک مقام ہے) پہنچ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو خیال ہوا کہ اس طرح چلنا مصلحت نہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی ۔ اور آپ نے ان کی رائے کے موافق مدینہ سے ہتھیار منگوالئے۔ جبکہ مکہ معظمہ دو منزل رہ گیا تو مکہ سے بشر بن سفیان نے آکر خبر دی کہ تمام قریش نے عھد کرلیا ہے کہ مسلمانوں کو مکہ میں قدم نہ رکھنے دیں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ اکابر صحابہ میں سے کسی کو سفارت کے طور پر بھیجیں کہ ہم کو لڑنا مقصود نہیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو اس خدمت پر مامور کرنا چاہا۔ انہوں نے عرض کی کہ قریش کو مجھ سے سخت عداوت ہے اور میرے خاندان میں وہاں کوئی میرا حامی موجود نہیں۔ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے عزیز واقارب وہیں ہیں اس لئے ان کو بھیجنا مناسب ہو گا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رائے کو پسند کیا۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو مکہ بھیجا۔ قریش نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو روک رکھا۔ اور جب کئی دن گزر گئے تو یہ مشہور ہو گیا کہ وہ شہید کر دئے گئے۔ رسول اللہ نے یہ سن کر صحابہ سے جو تعداد میں چودہ سو تھے جہاد پر بیعت لی ۔ اور چونکہ بیت ایک درخت کے نیچے لی تھی۔ یہ واقعہ بیت الشجرۃ کے نام سے مشہور ہوا۔ قرآن مجید کی اس آیت میں "لقد رضي الله عن المومنین اذیبایعونک تحت الشجرۃ" اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے اور آیت کی مناسبت سے اس کو بیعت رضوان بھی کہتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بیعت سے پہلے لڑائی کی تیاری شروع کر دی تھی۔ صحیح بخاری (غزوہ حدیبی) میں ہے کہ حدیبیہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے صاحبزادے عبداللہ کو بھیجا کہ فلاں انصاری سے گھوڑا مانگ لائیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ باہر نکلے تو دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے جہاد پر بیعت لے رہے ہیں۔ انہوں نے بھی جا کر بیعت کی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس واپس آئے تو دیکھا کہ وہ ہتھیار سجا رہے ہیں۔ عبداللہ نے ان سے بیعت کا واقعہ بیان کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اسی وقت اٹھے اور جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی۔
قریش کو اصرار تھا کہ رسول اللہ مکہ میں ہرگز داخل نہیں ہو سکتے۔ بڑے ردوبدل کے بعد ان شرائط پر معاہدہ ہوا کہ اس دفعہ مسلمان الٹے واپس جائیں۔ اگلے سال آئیں۔ لیکن تین دن سے زیادہ نہ ٹھریں معاہدہ میں یہ شرط بھی داخل تھی کہ دس برس تک لڑائی موقوف رہے۔ اور اس اثناء میں اگر قریش کا کوئی آدمی رسول اللہ کے ہاں چلا جائے تو رسول اللہ اس کو قریش کے پاس واپس بھیج دیں۔ لیکن مسلمانوں میں سے اگر کوئی شخص قریش کے ہاتھ آجائے تو ان کو اختیار ہو گا کہ اس کو اپنے پاس روک لیں۔ اخیر شرط چونکہ بظاہر کافروں کے حق میں زیادہ مفید تھی حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو نہایت اضطراب ہوا۔ معاہدہ ابھی لکھا نہیں جاچکا تھا کہ وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پہنچے اور کہا کہ اس طرح دب کر کیوں صلح کی جائے ۔ انہوں نے سمجھایا کہ رسول اللہ جو کچھ کرتے ہیں اس میں مصلحت ہوگی۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو تسکین نہیں ہوئی خود رسول اللہ کے پاس گئے ۔ اور اس طرح بات چیت کی۔
یا رسول اللہ! کیا آپ رسول خدا نہیں ہیں؟
رسول اللہ ! بے شک ہوں۔
حضرت عمر ! کیا ہمارے دشمن مشرک نہیں ہیں؟
رسول اللہ ! ضرور ہیں۔
حضرت عمر ! پھر ہم اپنے مذہب کو کیوں ذلیل کریں۔
رسول اللہ ! میں خدا کا پیغمبر ہوں اور خدا کے حکم کے خلاف نہیں کرتا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ گفتگو اور خصوصًا انداز گفتگو اگرچہ خلاف ادب تھا چنانچہ بعد میں ان کو سخت ندامت ہوئی۔ اور اس کے کفارہ کے لئے روزے رکھے۔ نفلیں پڑھیں خیرات دی غلام آزاد کئے۔ تاہم سوال و جواب کی اصل بناء اس نکتہ پر تھی کہ رسول کے کون سے افعال انسانی حیثیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور کون سے رسالت کے منصب سے۔
غرض معاہدہ صلح لکھا گیا اور اس پر بڑے بڑے اکابر صحابہ کے جن میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بھی داخل تھے دستخط ثبت ہوۓ معاہدہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کا قصد کیا۔ راہ میں سورۂ فتح نازل ہوئی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو بلا کر فرمایا کہ مجھ پر وہ سورہ نازل ہوئی جو مجھ کو دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے۔
یہ کہہ کر آپ نے یہ آیتیں پڑھی
انا فتحنا لک فتحًا مبینا۔
( بخاری واقعہ حدیبیہ)
محدثین نے لکھا ہے کہ اس وقت تک مسلمان اور کفار بالکل الگ الگ رہتے تھے۔ صلح ہو جانے سے آپس میں میل جول ہوا۔ اور رات دن کے چرچے سے اسلام کے مسائل اور خیالات روز بروز پھیلتے گئے۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ دو برس کے اندر اندر جس کثرت سے لوگ اسلام لائے 8 برس قبل کی وسیع مدت میں نہیں لائے تھے۔ جس بناء پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کی تھی اور ابتداء حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی فہم میں نہ آسکی وہ یہیں مصلحت تھی۔ اور اسی بناء پر خدا نے سورۂ فتح میں اس صلح کو فتح کے لحاظ سے تعبیر کیا۔
حضرت عمر کا اپنی بیویوں کو طلاق دینا
اس زمانے تک کافرہ عورتوں کو عقد نکاح میں رکھنا جائز تھا۔ لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی,
ولا تمسكوهن بعصم الكوافر
تویہ امر ممنوع ہو گیا۔ اس بناء پر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی دونوں بیویوں کو جو کافرہ تھیں طلاق دے دی۔ ان میں سے ایک کا نام قریبہ اور دوسری کا ام کلثوم بنت جرول تھا۔ ان دونوں کو طلاق دینے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جمیلہ سے جو ثابت بن ابی الاجلح کی بیٹی تھیں نکاح کیا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے فرزند عاصم انہی کے بطن سے تھے۔ اسی سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلاطین اور والیان ممالک کے نام دعوت اسلام کے خطوط بھیجے ۔
0 Comments