رستم چونکہ لڑنے سے جی چراتا تھا ایک دفعہ اور صلح کی کوشش کی سعد کے پاس پیغام بھیجا کہ تمہارا کوئی معتمد آدمی آۓ تو صلح کے متعلق گفتگو کی جائے سعد نے ربعی بن عامر کو اس خدمت پر مامور کیا۔ وہ عجیب وغریب ہیئت سے چلے عرق گیر کی زرہ بنائی اور اس کا ایک ٹکڑا سر سے لپیٹ لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس واقعہ کے بعد کئی مہینے تک دونوں طرف سکوت رہا۔ رستم جو سلطنت فارس کی طرف سے اس مہم پر مامور تھا۔ ساباط میں لشکر لئے پڑا تھا۔ اور یزد گردکی تاکید پر بھی لڑائی کو ٹالتا جاتا تھا۔ ادھر مسلمانوں کا یہ معمول تھا کہ آس پاس کے دیہات پر چڑھ جاتے تھے۔ اور رسد کے لئے مویشی وغیرہ لوٹ لاتے تھے۔ اس عرصہ میں بعض بعض رئیس ادھر سے ادھر آگئے۔ ان میں جوشن ماہ بھی تھا جو سرحد کی اخبار نویسی پر مامور تھا۔ اس حالت نے طول کھینچا تو رعایا جوق در جوق یزد گرد کے پاس پہنچ کر فریادی ہوئی کہ اب ہماری حفاظت کی جاۓ ورنہ ہم اہل عرب کے مطیع ہوۓ جاتے ہیں۔ چاروناچار رستم کو مقابلے کے لئے بڑھنا پڑا۔ ساٹھ ہزار کی جمعیت کے ساتھ ساباط سے نکلا اور قادسیہ پہنچ کر ڈیرے ڈالے ۔ لیکن فوج جن جن مقامات سے گزری ہر جگہ نہایت بے اعتدالیاں کیں۔ تمام افسر شراب پی کر بد مستیاں کرتے تھے۔ اور لوگوں کے ناموس تک کا لحاظ نہیں رکھتے تھے۔ ان باتوں نے عام ملک میں یہ خیال پھیلا دیا کہ سلطنت عجم اب فنا ہوتی نظر آتی ہے۔
رستم کی فوجیں جس دن ساباط سے بڑھیں سعد نے ہر طرف جاسوس پھیلا ديے کہ دم دم کی خبریں پہنچتی رہیں۔ فوج کا رنگ ڈھنگ لشکر کشی کی ترتیب ، اتارے کا رخ ان باتوں کے دریافت کے لئے فوجی افسر متعین کئے۔ اس میں کبھی کبھی دشمن کا سامنا بھی ہو جاتا تھا۔ چنانچہ طلحہ ایک دفعہ رات کے وقت رستم کے لشکر میں لباس بدل کر گئے۔ ایک جگہ بیش بہاگھوڑا تھان پر بندھا دیکھا تلوار سے باگ ڈور کاٹ کر اپنے گھوڑے کی باگ ڈور سے اٹکالی۔ اس عرصہ میں لوگ جاگ اٹھے اور ان کا تعاقب کیا گھوڑے کا سوار ایک مشہور افسر تھا۔ اور ہزار سوار کے برابر مانا جاتا تھا اس نے قریب پہنچ کر برچھی کا وار کیا۔ انہوں نے خالی دیا۔ وہ زمین پر گرا انہوں نے جھک کر برچھی ماری کہ سینے کے پار ہو گئی۔ اس کے ساتھ دو سوار تھے ان میں سے ایک ان کے ہاتھ سے مارا گیا۔ اور دوسرے نے اس شرط پر امان طلب کی کہ میں قیدی بن کر ساتھ چلتا ہوں اتنے میں تمام فوج میں ہل چل پڑ گئی اور لوگ ہر طرف سے ٹوٹ پڑے لیکن طلحہ لڑتے بھڑتے صاف نکل آۓ اور ساٹھ ہزار فوج دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔قیدی نے سعد کے سامنے اسلام قبول کیا۔ اور کہا کہ دونوں سوار جو طلحہ کے ہاتھ سے مارے گئے۔ میرے ابن عم تھے۔ اور ہزار ہزار سوار کے برابر مانے جاتے تھے اسلام کے بعد قیدی کا نام مسلم رکھا گیا اور اس کی وجہ سے دشمن کی فوج کے بہت سے ایسے حالات معلوم ہوۓ جو اور کسی طرح معلوم نہیں ہو سکتے تھے وہ بعد کے تمام معرکوں میں شریک رہا اور ہر موقع پر ثابت قدمی اور جانبازی کے جوہر دکھائے۔
رستم چونکہ لڑنے سے جی چراتا تھا ایک دفعہ اور صلح کی کوشش کی سعد کے پاس پیغام بھیجا کہ تمہارا کوئی معتمد آدمی آۓ تو صلح کے متعلق گفتگو کی جائے سعد نے ربعی بن عامر کو اس خدمت پر مامور کیا۔ وہ عجیب وغریب ہیئت سے چلے عرق گیر کی زرہ بنائی اور اس کا ایک ٹکڑا سر سے لپیٹ لیا۔ کمر میں رسی کا پٹکا باندھا اور تلوار کے میان پر چیتھڑے لپیٹ لئے۔ اس ہیئت کذائی سے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلے۔ ادھر ایرانیوں نے بڑے سازو سامان سے دربار سجایا دیبا کا فرش زرین ،گاؤ تکيے ،حریر کے پردے، صدر میں مرصع تخت ربعی فرش کے قریب آکر گھوڑے سے اترے اور باگ ڈور کو گاؤ تکئے سے اٹکا دیا۔
درباری بے پروائی کی ادا سے اگرچہ کچھ نہ بولے۔ تاہم دستور کے موافق ہتھیار رکھوا لینا چاہا۔ انہوں نے کہا میں بلایا ہوا آیا ہوں تم کو اس طرح میرا آنا منظور نہیں تو میں الٹا پھر جاتا ہوں درباریوں نے رستم سے عرض کی اس نے اجازت دی۔ یہ نہایت بے پروائی کی ادا سے آہستہ آہستہ تخت کی طرف بڑھے۔ لیکن برچھی جس سے عصا کا کام لیا تھا۔ اس کی انی کو اس طرح فرش میں چھوتے جاتے تھے کہ پر تکلف فرش اور قالین جو بچھے ہوۓ تھے جابجا سے کٹ پھٹ کر بیکار ہو گئے۔ تخت کے قریب پہنچ کر زمین پر نیزہ مارا جو فرش کو آر پار کر کے زمین میں گڑ گیا۔ رستم نے پوچھا کہ اس ملک میں کیوں آۓ ہو؟ انہوں نے کہا کہ اس لئے کہ مخلوق کی بجاۓ خالق کی عبادت کی جاۓ“ رستم نے کہا میں ارکان سلطنت سے مشورہ کر کے جواب دوں گا۔ درباری بار بار ربعی کے پاس آکر ان کے ہتھیار دیکھتے تھے اور کہتے تھے اس سامان پر ایرانکی فتح کا ارادہ ہے؟ لیکن جب ربعی نے تلوار میان سے نکالی تو آنکھوں میں بجلی کوندی گئی۔ اور جب اس کے کاٹ کی آزمائش کے لئے ڈھالیں پیش کی گئیں تو ربعی نے ان کے ٹکڑے اڑا دیے۔ ربعی اس وقت چلے آۓ لیکن نامہ و پیام کا سلسلہ جاری رہا۔
اخیر سفارت میں مغیرہ گئے۔ اس دن ایرانیوں نے بڑے ٹھاٹھ سے دربار جمایا۔جس قدر ندیم اور افسر تھے تاج پہن کر کرسیوں پر بیٹھے خیمے میں دیبا و سنجاب کا فرش بچھایا گیا۔ اور خدام اور منصب دار قرینے سے دو رویہ سے جما کر کھڑے ہوۓ۔ مغیرہ گھوڑے سے اتر کر سیدھے صدر کی طرف بڑھے اور رستم سے زانو سے زانوں ملا کر بیٹھ گئے۔ اس گستاخی پر تمام دربار برہم ہو گیا۔ یہاں تک کہ چوبداروں نے بازو پکڑ کر ان کو تخت سے اتار دیا مغیرہ نے افسران دربار کی طرف خطاب کر کے کہا کہ میں خود نہیں آیا بلکہ تم نے بلایا تھا۔ اس لئےمہمان کے ساتھ یہ سلوک زیبانہ تھا۔ تمہاری طرح ہم لوگوں میں یہ دستور نہیں کہ ایک شخص خدا بن بیٹھے اور تمام لوگ اس کے آگے بندہ ہو کر گردن جھکائیں مترجم جس کا نام عبود تھا حیرہ کا باشندہ تھا۔ اس تقریر کا ترجمہ کیا تو سارا دربار متاثر ہوا۔ اور بعض بعض بول اٹھے کہ ہماری غلطی تھی جو ایسی قوم کو ذلیل سمجھتے تھے ، رستم بھی شرمندہ ہوا اور ندامت مٹانے کو کہا کہ ”یہ نوکروں کی غلطی تھی۔ میرا ایما یا حکم نہ تھا پھر بے تکلفی کے طور پر مغیرہ نے ترکش سے تیر نکالے اور ہاتھ میں لے کر کہا کہ ان نکلوں سے کیا ہوگا؟ مغیرہ نے کہا کہ "آگ کا لو گو چھوٹی ہے پھر بھی آگ ہے"۔ رستم نے ان کی تلوار کا نیام دیکھ کر کہا ” کس قدر بوسیدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں لیکن تلوار پر باڑھ ابھی رکھی گئی ہے" اس نوک جھونک کے بعد معاملے کی بات شروع ہوئی۔ رستم نے سلطنت کی شان و شوکت کا ذکر کر کے اظہار احسان کے طور پر کہا کہ اب بھی واپس چلے جاؤ تو ہم کو کچھ ملال نہیں، بلکہ کچھ انعام دلا دیا جاۓ گا۔ مغیرہ نے تلوار کے قبضے پر ہاتھ رکھ کر کہا کہ اگر اسلام و جزیہ منظور نہیں تو اس سے فیصلہ ہو گا رستم غصہ سے بھڑک اٹھا اور کہا کہ آفتاب کی قسم کل تمام عرب کو برباد کردوں گا۔ مغیرہ اٹھ کر چلے آۓ اور صلح و آشتی کی تمام امیدوں کا خاتمہ ہو گیا۔
0 Comments